رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
مَنَافٍ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِّنَ اللہِ شَیْئًا یَا عَبَّاسُ ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللہِ شَیْئًا وَّیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللہِ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللہِ شَیْئًا وَّیَافَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِئْتِ مِنْ مَّالِیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللہِ شَیْئًا؎ ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ( اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ ڈرائیے اپنے کنبہ کے لوگوں کو جو بہت قریب کے ہیں ) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو بلایا۔ جب وہ جمع ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب میں تعمیم کی اور تخصیص بھی ( یعنی ان کےجد بعید کا نام لے کربھی مخاطب کیا تا کہ سب کو عام شامل ہوجائے اور ان کے جد قریب کا نام لے کر بھی مخاطب کیا تاکہ بعض کے ساتھ مخصوص ہوجائے)چناں چہ آپ نے فرمایا:اے کعب بن لوی کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ ۔ اے مرہ بن کعب کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اے عبد شمس کی اولاد! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اے عبد مناف کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اے ہاشم کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اے عبد المطلب کی اولاد! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ ۔ اے فاطمہ! اپنی جان کو آگ سے بچا ۔ اس لیے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں۔ ( یعنی میں کسی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچاسکتا ) البتہ مجھ پرتمہارا قرابت کا حق ہے جس کو میں قرابت کی تری سے تر کرتا ہوں۔ اوربخاری ومسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا: اے قریش کی جماعت ! اپنی جانوں کو خرید لو ( یعنی ایمان لا کر اور اطاعت وفرماں برداری کرکے دوزخ ------------------------------