رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پروردگار نے مجھ کو نو باتوں کا حکم دیا ہے : ۱) ظاہر وباطن میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا۔ ۲) سچی اور راست بات کہنا غصہ اور رضا مندی کی حالت میں۔ یعنی جب آدمی کسی سے خوش ہوتا ہے تو اس کی تعریف کرتا ہے اور اس کا عیب چھپاتا ہے اور جب غصہ آتا ہے تو اس کے برعکس کرتا ہے۔چاہیے کہ دونوں حالتوں میں یکساں رہے۔ ۳) فقر اورغنا میں میانہ روی۔ یعنی فقر اور غنا دونوں حالتوں میں اعتدال پر قائم رہے، حالت ِ فقر میں غصہ اور بے صبری نہ کرے اور غنا میں تکبر اور سرکشی نہ اختیار کرے۔ ۴) میں اس سے قرابت داری کو قائم وبرقرار رکھوں جو مجھ سے قطع تعلق کرے یعنی جو رشتہ دار مجھ سے قطع رحمی وبدسلوکی کرے میں اس کے ساتھ سلوک واحسان ہی کروں اور یہ غایتِ حلم وتواضع ہے۔ ۵)میں اس شخص کو دوں جو مجھ کو محروم رکھے۔ ۶)جو شخص مجھ پر ظلم کرے میں ( باوجود قدرتِ انتقام ) اس کو معاف کردوں۔ ۷) میری خاموشی غور وفکر ہو۔ یعنی جب خاموش رہوں تو اسماء وصفات اور مصنوعاتِ الہٰیہ میں غور وفکر کروں۔ ۸) میری گویائی ذکرِ الٰہی ہو۔ یعنی جب بات کروں تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کروں ۔جیسے تسبیح وتحمید وتکبیر وتلاوت اور وعظ ونصیحت وغیرہ ۔ ۹) اور میری نظر عبرت حاصل کرنے کے لیے ہو۔ اور میرے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ میں امر بالمعروف کروں۔ تشریح: نمبر ۹ میں نہی عن المنکر نہ ذکر کیا وہ اس لیے کہ امر بالمعروف دونوں کو شامل ہے اچھی بات کے کرنے کو اور بُری بات کے نہ کرنے کو۔ 172۔وَعَنْ عَبْدِ اللہِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَامِنْ عَبْدٍ مُّؤْمِنٍ یَّخْرُجُ مِنْ عَیْنَیْہِ دُمُوْعٌ وَّاِنْ کَانَ مِثْلَ رَاسِ