رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
تشریح: برابر سرابر کا مطلب ہے کہ نہ ان اعمال سے نفع پہنچے نہ ضرر، اور نہ ثواب ملے ان اعمال کا نہ ان کے سبب عذاب ہو ؎ طاعتِ ناقصِ ما موجبِ غفراں نہ شود راضییم گر مدد علتِ عصیاں نہ شود ہماری ناقص عبادت باعثِ مغفرت نہیں ہوتی تو میں راضی ہوں کہ وہ عبادت عفو کردی جائے اور سببِ زیادتی معاصی نہ بنے۔ عارفین حضرات نے فرمایا ہے کہ جو گناہ دل میں ندامت وذلت اورشرمساری وحقارت پیدا کرے وہ بہتر ہے اس طاعت وعبادت سے جو دل میں ناز وبڑائی یعنی تکبر اور عجب پیدا کرے ؎ ازیں بر ملائک شرف د اشتند کہ خود را بہ از سگ نہ پند اشتند اولیائے کرام اس سبب سے فرشتوں سے بازی لے جاتے ہیں کہ اپنے کو خاتمہ اور انجام کے خوف سے کتوں سے بھی بہتر نہیں سمجھتے۔ اور وہ تواضع جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہو اس پر بلندی کا وعدہ ہے۔ 171۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَرَنِیْ رَبِّیْ بِتِسْعٍ خَشْیَۃِ اللہِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃِ وَکَلِمَۃِ الْعَدْلِ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا وَالْقَصْدِ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنٰی وَاَنْ اَصِلَ مَنْ قَطَعَنِیْ وَاُعْطِیَ مَنْ حَرَمَنِیْ وَاَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَنِیْ وَاَنْ یَّکُوْنَ صَمْتِیْ فِکْرًا وَّنُطْقِیْ ذِکْرًا وَّنَظَرِیْ عِبْرَۃً وَّاٰمُرَ بِالْعُرْفِ وَقِیْلَ بِالْمَعْرُوْفِ۔ رَوَاہُ رَزِیْنٌ؎ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ ------------------------------