رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
چلتے ہیں، آج کے دن میں تجھ پر حاکم وقادر بنائی گئی ہوں اور تو مجبور ہو کر میری طرف آیا ہے پس تو عن قریب میرے اس نیک سلوک کو دیکھے گا جو میں تیرے لیے کروں گی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس مومن بندے کے لیے حدِّ نظر تک قبر کشادہ ہوجاتی ہے اور جنّت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے (جس سے وہ جنّت میں اپنی جگہ دیکھتا ہے اور اس میں سے ٹھنڈی ہوائیں اور خوشبوئیں آتی ہیں اور حور وقصور اور جنّت کی نہریں اور میوے اور درخت دیکھ کر اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں)اور جب فاجر یا کافر بندے کو دفن کیا جاتا ہے تو قبر اس سے کہتی ہے: نہ تو تیرا ا ٓنا مبارک اور نہ قبر تیرے لیے کشادہ مکان ہے، تو میرے نزدیک ان تمام لوگوں میں سے جو مجھ پر چلتے ہیں نہایت مبغوض اور بُرا تھا، اور آج کے دن کہ میں تجھ پر حاکم وقادر کی گئی ہوں اور تو مجبور ومقہور ہو کر میری طرف آیا ہےتو تُو دیکھے گا کہ میں تیرے ساتھ کیسا بُرا سلوک کرتی ہوں۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر قبر اس کو دباتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر کی اُدھر نکل جاتی ہیں۔حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نےفرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا اور اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کیں (یہ دکھانے کے لیے کہ قبر کے دبانے سے کافر کی پسلیاں اس طرح ایک دوسرے کے اندر گھس جاتی ہیں )پھر فرمایا: اس کافر پر ستر اژدہے مقرر کیے جاتے ہیں ( ایسے اژدہے کہ ) اگر ایک ان میں سے زمین پر پُھنکار مارے تو قیامت تک زمین سبزہ نہ اگائے۔ یہ اژدہے اس کو کاٹتے اور نوچتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس بندے کو حساب کے لیے لے جایا جائے، راوی ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبر جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک آگ کا گڑھا ہے۔ تشریح:’’موت کو کثرت سے یاد کرو کہ یہ لذت کو کاٹنے والی ہے‘‘۔ یہ نہایت نصیحت ہے غافلوں کے لیے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرنا غافل کے دل کو زندہ کرتا ہے۔ چناں چہ عارف باللہ مولانا نور الدین علی متقی ایک تھیلی بنا کر رکھتے تھے جس پر موت لکھا ہوتا تھا جب کوئی ان سے مرید ہوتا اس مرید کی گردن میں یہ