رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
164۔ وَعَنْ اُبَیِّ ابْنِ کَعْبٍ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا ذَھَبَ ثُلُثَا اللَّیْلِ قَامَ فَقَالَ یٰاَیُّھَا النَّاسُ اذْکُرُوا اللہَ اُذْکُرُوااللہَ جَاءَتِ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُھَا الرَّادِفَۃُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَافِیْہِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَافِیْہِ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ؎ ترجمہ:حضرت اُبی ابنِ کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے ( نمازِ تہجد کے لیے ) اور فرماتے: اے لوگو! اللہ تعالیٰ کو یاد کرو، اللہ تعالیٰ کو یاد کرو، زلزلہ آیا اور اس کے پیچھے آتا ہے پیچھے آنے والا۔ موت آپہنچی مع ان احوال کے جو اس میں ہیں، موت آپہنچی مع ان احوال کے جو اس میں ہیں۔ تشریح:اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے والوں اور غافلوں کو اس حدیث میں تہجد کی تاکید فرمائی ہے، اور زلزلہ آنے کا مطلب قیامت کے قرب کا بتانا ہے اور اس میں اشارہ ہے کہ سونا مشابہ موت ہے جو علامت نفخہ ٔاولیٰ ہے اور جاگنا نفخۂ ثانیہ ہے اور یہ دونوں نشانیٔقیامت ہیں جو سونے اور جاگنے میں موجود ہیں پس ہر رات عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ نیند موت کا بھائی ہے۔ پھر جاگنے کے بعد کی دعا جو وارد ہے کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہمیں زندگی دی بعد موت دینے کے اور اس کی طرف حشر ونشر کے لیے جانا ہے اس سے معلوم ہوا کہ سونے اور جاگنے میں حشر ونشر کے علامات موجود ہیں۔ 165۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِصَلٰوۃٍ فَرَأَی النَّاسَ کَاَنَّھُمْ یَکْتَشِرُوْنَ قَالَ اَمَا اِنَّکُمْ لَوْ اَکْثَرْتُمْ ذِکْرَ ھَاذِمِ اللَّذَّاتِ لَشَغَلَکُمْ عَمَّا اَرَی الْمَوْتِ فَاَکْثِرُوْا ذِکْرَ ھَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتِ فَاِنَّہٗ لَمْ یَاْتِ عَلَی الْقَبْرِ یَوْمٌ اِلَّا تَکَلَّمَ فَیَقُوْلُ اَنَابَیْتُ الْغُرْبَۃِ ------------------------------