رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ؎ ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاس آیت کا مطلب دریافت کیا: وَالَّذِیۡنَ یُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوۡا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ وَجِلَۃٌ؎ ( یعنی وہ لوگ دیتے ہیں جو کچھ کہ دیتے ہیں اس حال میں کہ ان کے دل ترساں ولرزاں ہیں ) کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے صدیق ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کی بیٹی ! نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں،نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں اور اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں کہ ان کے ان اعمال کو ( شاید ) قبول نہ کیا جائے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں۔ تشریح: یعنی نہایت رغبت کرتے ہیں طاعات میں اور دوڑتے ہیں اعمال ِ صالحہ کی طرف لیکن ڈرتے ہیں اس خوف سے کہ عبادات میں حق تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کا حق ادا نہ ہوسکا اس لیے استغفار کرتے ہیں۔ پس عام لوگ تو صرف سیئات سے استغفار کرتے ہیں اور خواصِّ اُمت حسنات کے بعد بھی استغفار کرتے ہیں کہ جو کوتاہیاں ادائیگئ حسنات میں ہوئی ہوں وہ معاف ہوجائیں۔ اور ’’دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ مالی اور بدنی جو عبادتیں کرتے ہیں ساتھ ساتھ ان کے دل ڈرتے رہتے ہیں کہ قبول ہوئی یا نہیں۔ احقر مؤلف کتابِ ہٰذا عرض کرتا ہے کہ ہمارے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ کرتا رہے اور ڈرتا رہے، یعنی نیک اعمال کرکے بے ڈر نہ ہو اور ناز نہ ہو، اور نہ اتنا ڈر مطلوب ہے کہ خوف سے اعمال ہی چھوڑ بیٹھے ۔ یہ اس لیے کہ حق تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بھی فرمادیا کہ یہ ڈرنے والےبندے وہ لوگ ہیں جو نیک کاموں میں جلدی کرنے والے ہیں۔ ------------------------------