رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ ( قیامت کے دن ) فرمائے گا ( ان فرشتوں سے جو دوزخ پر متعین ہیں) آگ میں سے اس شخص کو نکال دو جس نے مجھ کو ایک دن بھی یاد کیا ہے یا کسی مقام پر مجھ سے ڈرا ہے۔ تشریح:ذکر سے مراد اخلاص ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کو ایک جاننا خالص دل سے اور سچی نیت سے ۔ دلیل اس مفہوم پر یہ حدیث ہے کہ مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ خَالِصًا مِّنْ قَلْبِہٖ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ۔ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہْ کہا خالص دل سے وہ جنّت میں داخل ہوگیا۔ اور مراد خوف سے یہاں اپنے اعضاء کو گناہوں سے محفوظ رکھنا ہے اور اپنے اعضاء کو اطاعت وعبادت میں مشغول رکھنا ہے۔ اور دلیل اس کی یہ حدیث ہے اَللّٰھُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِکَ مَا تَحُوْلُ بِہٖ بَیْنَنَا وَبَیْنَ مَعَاصِیْکَ۔ اے اللہ! مجھے اپنے خوف کا وہ حصہ عطا فرما جو میرے اور تیرے معاصی کے درمیان حائل ہوجاوے۔ پس خوفِ خدا اسی کا نام ہے جو گناہ سے دور رکھے، اور گناہوں میں ملوث آدمی کا خوفِ خدا پر دعویٰ غلط اور جھوٹ ہے۔ اسی سبب سے حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی تجھ سے کہے کہ کیا تو اللہ سے ڈرتا ہے ؟ تو خاموشی اختیار کرلے، کیوں کہ اگر کہتا ہے کہ نہیں ڈرتا ہوں تو کافر ہوتا ہے اور اگر تو کہتا ہے کہ ڈرتا ہوں تو تیرا دعویٰ جھوٹ ہے کیوں کہ گناہوں سے تو محفوظ نہیں ہے۔ ؎ 163۔وَعَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃِ وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُھُمْ وَجِلَۃٌ اَھُمُ الَّذِیْنَ یَشْرَبُوْنَ الْخَمْرَ وَیَسْرِقُوْنَ قَالَ لَا یَاابْنَۃَ الصِّدِّیْقِ وَلٰکِنَّھُمُ الَّذِیْنَ یَصُوْمُوْنَ وَیُصَلُّوْنَ وَیَتَصَدَّقُوْنَ وَھُمْ یَخَافُوْنَ اَنْ لَّا یُقْبَلَ مِنْھُمْ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ------------------------------