رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
سفارش کرتا ہے تو اس کی سفارش قبول نہیں کی جاتی ،یعنی گم نام ،بے نامونشان ہونے کے سبب مخلوق ایسے بندے کو بے قدر سمجھتی ہے۔ تشریح:بندۂ دینار کا مطلب یہ ہے کہ مال کی مذموم دوستی جو آخرت سے غافل کردے، اور اگر مال ہو لیکن اس کی محبت میں گرفتار نہ ہو تو مذموم نہیں۔ اور خاص دینار اور درہم جو فرمایا تو اس لیے کہ یہ نقد ہے جس سے نفس کی ہر بُری خواہش کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ خَمِیْصَۃْاس سیاہ چادرکو کہتے ہیں جسپر خطوط ( دھاریاں ) ہوں، اور خاص اس کو اس لیے ذکر فرمایا کہ اس سے رعونت اور تکبر اور ریا اور سمعہ پیدا ہوتا ہے۔ بندہ ہونا اس لیے ہے کہ کمالِ رغبت ومحبت سے اس کی جدائی پر تحمل نہیں رکھتے تو گویا کہ اس کے غلام ہوچکے ہیں۔؎ 7- وَعَنْ عَمْرِو ابْنِ عَوْفٍ قَالَ قَالَ رَسُوْ لُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَاللہِ لَاالْفَقْرَ اَخْشٰی عَلَیْکُمْ وَلٰکِنْ اَخْشٰی عَلَیْکُمْ اَنْ تُبْسَطَ عَلَیْکُمُ الدُّنْیَا کَمَا بُسِطَتْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَتَنَا فَسُوْھا کَمَا تَنَافَسُوْھَا وَتُھْلِکَکُمْ کَمَا اَھْلَکَتْھُمْ ؎ ترجمہ: حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اللہ کی قسم! میں تمہارے فقر وافلاس سے نہیں ڈرتا بلکہ اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کی جائے جس طرح تم سے پہلے والوں پر کشادہ کی گئی تھی پھر تم دنیا کی محبت ورغبت میں گرفتار ہوجاؤ گے جس طرح تم سے پہلے والے گرفتار ہوئے تھے اور یہ دنیا پھر تم کو ہلاک کردے گیجس طرح تمسے پہلے والوں کو ہلاک کیا تھا۔ تشریح:اس حدیث میں دنیا کی کشادگی سے وہ وسعت مراد ہے جو ضرورت سے زائد ہو اور یہی حالت غفلت اور گمراہی کا سبب ہوتی ہے۔ چوں کہ دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے جیساکہ دوسری حدیث شریف میں مذکور ہے: ------------------------------