رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ میری اُمت میں کچھ قومیں ایسی ہوں گی جو خز اور ریشم کو اور شراب کو اور باجوں کو حلال وجائز کرلیں گی اور ان میں سے کچھ قومیں اونچے پہاڑوں کے پہلو میں قیام اختیار کریں گی یعنی ان کی جائے قیام مشہور اور نمایاں جگہ ہوگی کہ گدا اور محتاج سب ان کو دیکھنے آئیں گے اور حاجتیں طلب کریں گے۔ رات کے وقت ان کے مویشی (جو چرنے کو گئے تھے) واپس آئیں گے (پیٹ بھرے ہوئے اور تھنوں میں دودھ بھرا ہوا) اور ایک سائل ان کے پاس حاجت کے سبب آئے گا (تاکہ مویشی کے دودھ سے محظوظ ہو) وہ اس سے کہہ دیں گے کہ کل ہمارے پاس آنا پھر رات ہی کو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب نازل فرمائے گا اور پہاڑ کو ان کے بعض آدمیوں پر گرادے گا اور بعض کی صورتوں کو مسخ کردے گا اور بندر اور سؤر بنادے گا جو قیامت تک اسی شکل و صورت میں رہیں گے۔ تشریح:اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خسف اور مسخ کا عذاب اس اُمت پر بھی ہوگا جیسا کہ اگلی اُمتوں پر ہوا۔ پس حدیثوں میں جو اس کی نفی آتی ہے وہ یا تو محمول ہے اس معنیٰ پر کہ اس اُمت کے اوّل زمانہ میں ایسا نہ ہوگا، اور یا محمول ہے کہ تمام اُمت پر خسف و مسخ نہ ہوگا پس بعض پر ہوسکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب 157۔وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا اَنْزَلَ اللہُ بِقَوْمٍ عَذَابًا اَصَابَ الْعَذَابُ مَنْ کَانَ فِیْھِمْ ثُمَّ بُعِثُوْا عَلٰی اَعْمَالِھِمْ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ ؎ ترجمہ:حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر عذاب نازل فرماتا ہے تو یہ عذاب ہر اس شخص کو گھیر لیتا ہے جو اس قوم میں ہوتا ہے (یعنی صالح اور غیر صالح) پھر (آخرت میں) لوگوں کو مع ان کے اعمال کے اٹھایا جائے گا۔ ------------------------------