رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
خوف سے یعنی رِیا کے خوف سے ترکِ عبادت بھی ریا ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ مخلوق کو نظر سے ہٹا دے اور عظمت وکبریائی حق تعالیٰ کی سامنے رکھے جیسا کہ آفتاب کے ہوتے ستارے نظر نہیں آتے۔ مگر یہ مقام منتہی اور کامل کا ہے۔ مبتدی کے لیے طاعات ومعمولاتِ نافلہ کا اخفا ہی مناسب بلکہ ضروری ہے۔ اور بعضے جاہل صوفیا جو جماعت سے مسجد میں نماز نہیں ادا کرتے اور ریا کا خوف ظاہر کرکے فرائض بھی گھروں میں ادا کرتے ہیں تو یہ ان کی سخت نادانی اور جہالت ہے۔ صرف نوافل اور طاعاتِ نافلہ کے لیے یہ حکم سمجھے۔ حدیث حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جس شخص کے اندر کوئی اچھی یا بُری خصلت چھپی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ایک علامت اس سے ظاہر فرماتے ہیں جس کے سبب وہ صورت سے پہچان لیا جاتا ہے۔ 151۔وَعَنْ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّمَا اَخَافُ عَلٰی ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ کُلَّ مُنَافِقٍ یَّتَکَلَّمُ بِالْحِکْمَۃِ وَیَعْمَلُ بِالْجَوْرِ۔ رَوَی الْبَیْھَقِیُّ الْاَحَادِیْثَ الثَّلَاثَۃَ فِیْ شُعَبِ الْاِیْمَانِ؎ ترجمہ:حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا:میں اس اُمت پر ( یعنی اپنی اُمت پر ) ہر منافق کے شر سے ڈرتا ہوں جو علم وحکمت کی تو باتیں کرتا ہے اور ظلم کے کام کرتا ہے۔ تشریح:یعنی وعظ کہتا ہے لوگوں کو معتقد بنا کر ان سے دنیا کا کوئی فائدہ حاصل کرنے کے لیے اور خود اس پر عمل نہیں کرتا کہ اس کا دل تقویٰ کے نور سے خالی ہوتا ہے اور یہی صفت منافقوں کی ہے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے وجود سے اپنی اُمت پر خوف فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ جملہ خدامِ دین کی اس فتنے سے حفاظت فرمائیں ۔ آمین۔ اور سب کے صدقہ میں اس عبد ناکارہ کی حفاظت فرمائیں،آمین ۔ 152۔وَعَنِ الْمُھَاجِرِ ابْنِ حَبِیْبٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اللہُ تَعَالٰی اِنِّیْ لَسْتُ کُلَّ کَلَامِ الْحَکِیْمِ اَتَقَبَّلُ وَلٰکِنِّیْ اَتَقَبَّلُ ------------------------------