رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
اور جس شخص کی نیت ( اعمال میں ) دنیا کا حاصل کرنا ہو اللہ تعالیٰ افلاس کو اس کی آنکھوں کے سامنے کردیتا ہے ( یعنی فقر وافلاس اس کو محسوس ہونے لگتا ہے ) اور اس کے کاموں میں انتشار اور پریشانی پیدا کرتا ہے اور دنیا اس کو صرف اس قدر ملتی ہے جتنا کہ اللہ نے اس کے لیے مقدر کیا ہے۔ تشریح:یعنی جو آخرت کو مطلوب اور مقصود بناوے گا حق تعالیٰ کی طرف سے اس کو قلبی جمعیت اور سکون عطا ہوتا ہے اور اس کے لیے رزق کو آسان فرمادیتے ہیں، اور اگر آخرت کو پسِ پشت ڈالا اور دنیا کو مقدم اور مطلوب ومقصود بنایا تو اس کو قلبی پریشانی اور سرگردانی رہتی ہے اور رزق وہی ملتا ہے جو اس کی تقدیر میں ہے محض ہوس وطمع سے تقدیر سے زیادہ نہیں ملا کرتا۔ 141۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللہِ بَیْنَا اَنَا فِیْ بَیْتِیْ فِیْ مُصَلَّایَ اِذْ دَخَلَ عَلَیَّ رَجُلٌ فَاَعْجَبَنِیَ الْحَالُ الَّتِیْ رَاٰنِیْ عَلَیْھَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَحِمَکَ اللہُ یَا اَبَا ھُرَیْرَۃَ لَکَ اَجْرَانِ اَجْرُ السِّرِّ وَاَجْرُ الْعَلَانِیَۃِ۔رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ؎ ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! میں اپنے گھر میںا پنے مصلے پر نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور یہ دیکھ کر مجھ کو خوشی ہوئی کہ اس شخص نے مجھ کو نماز پڑھتے دیکھا (یعنی میراخوش ہونا ریا کاری تو نہیں)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ابوہریرہ ! خدا تجھ پررحم فرمائے تجھ کو دو اجر ملیں گے: ایک تو خفیہ طور پر نماز پڑھنے کا اور دوسرا اجر نمازِ ظاہر کا۔ تشریح:ظاہراً حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی خوشی اس سبب سے تھی کہ دیکھنے والے کو بھی عمل کا شوق پیدا ہوگا یا بحکم مَنْ سَنَّ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہٗ اَجْرُھَا وَاَجْرُ ------------------------------