رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
تشریح:ظاہر اس کا یہی ہے کہ ریا کی آمیزش اعمال کے ثواب کو ضایع کردیتی ہے لیکن علماء نے کہا ہے کہ جس ریا میں ثواب کی مطلق نیت نہ ہو یا ریا کا قصد غالب ہو اس وقت ثواب بالکل ضایع ہوتا ہے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ عنوان ریا سے منع کرنے کے لیے بطور تخویف استعمال کیا گیا ہو تاکہ بندہ طاعات میں ریا سے احتیاط کرنے میں خوفزدہ رہے۔ واللہ اعلم بالصواب 138۔ وَعَنْ جُنْدُبٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللہُ بِہٖ وَمَنْ یُّرَایِٔ یُرَایِٔ اللہُ بِہٖ۔ مَتَّفَقٌ عَلَیْہِ؎ ترجمہ:حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کوئی عمل سنانے اور شہرت حاصل کرنے کے لیے کرے اللہ تعالیٰ اس کے عیب کو مشہور کرے گا ( اور قیامت کے روز رسوا کرے گا ) اور جو شخص کوئی عمل دکھانے کے لیے کرے اللہ اس کو ریا کاروں کی سزا دکھائے گا۔ تشریح:ریا کاروں کی سزا یہ ہے کہ دنیا میں اس کے اعمال کو لوگ جان لیں گے لیکن آخرت کے ثواب سے اس کو محروم کردیا جاوے گا جس سے قیامت کے دن اسے بڑی حسرت ہوگی۔ 139۔وَعَنْ اَبِیْ ذَرٍّ قَالَ قِیْلَ لِرَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَرَأَیْتَ الرَّجُلَ یَعْمَلُ الْعَمَلَ مِنَ الْخَیْرِ وَیَحْمَدُہُ النَّاسُ عَلَیْہِ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ وَّیُحِبُّہُ النَّاسُ عَلَیْہِ قَالَ تِلْکَ عَاجِلُ بُشْرَی الْمُؤْمِنِ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ؎ ترجمہ:حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اس شخص کی نسبت آپ کا کیا خیال ہے جو نیک کام کرتا ہے اور لوگ اس ------------------------------