رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
نیز یہ کہ مومن دنیا سے آخرت کی طرف خروج کی تمنا رکھتا ہے اور کافر دنیا میں خلودیعنی ہمیشہ رہنے کی تمنا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنّت ہے۔ اور مقصود اس حدیثِ پاک کا یہ ہے کہ مومن کے نزدیک دنیا کی نعمتوں کی آخرت کے مقابلے میں کوئی وقعت نہیں ہوتی اگر چہ بظاہر کثیر اور جلیل القدر ہوں اور اس کی تمام تر فکر آخرت کی زندگی کے لیے وقف ہوتی ہے اور کافر آخرت کی زندگی کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے اِنْ ھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَاالدُّنْیَا؎ نہیں ہے مگر صرف دنیا کی زندگی ( لمعات ) 5- عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُجِبَتِ النَّارُ بِالشَّھَوَاتِ وَحُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بِالْمَکَارِہِ۔مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ اِلَّاعِنْدَ مُسْلِمٍ حُفَّتْ بَدَلَ حُجِبَتْ ؎ ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:دوزخ ڈھانکی گئی ہے شہوات سے ( یعنی دوزخ پر شہوتوں اور لذّتوں کے پردے پڑے ہوئے ہیں پس جو شخص شہوتِ نفسانی میں اپنے کو مبتلاکردیتا ہے وہ دوزخ کا پردہ چاک کرتا ہے یعنی اس میں داخل ہوجاتا ہے ) اور جنّت ڈھانکی گئی ہے سختیوں اورتکلیفوں سے ( پس جو شخص اعمالِ صالحہ پر دوام اور گناہوں سے صبر کی تکلیف کو برداشت کرتا ہے وہ جنّت کےپردہ کو چاک کرتا ہے یعنی اس میں داخل ہوجاتا ہے) (بخاری ومسلم )اورمسلم شریف کی روایت میں ہے کہ حُفَّتْ یعنی دوزخ کو شہوتوں سے اور جنّت کو تکلیفوں سے گھیردیا گیا ہے۔ تشریح:خلاصۂ مفہوم حدیثِ مذکور کا یہ ہے کہ دوزخ تک کوئی شخص نہ پہنچے گا جب تک وہ شہوات کا یعنی گناہوں کا ارتکاب نہ کرے گا، اسی طرح کسی شخص کو جنّت تک ------------------------------