رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
اس سے ناراض ہوتے ہیں اور زمین وآسمان کے خزانوں کے مالک ہی سے مانگنا بھی چاہیے ۔ اور جاننا چاہیے کہ حق تعالیٰ کی نصرت صبر کے ساتھ ہے اور کشادگی تکلیف کے ساتھ ہے یعنی ہر تنگی کے بعد کشادگی ہے اور ہر غم کے بعد راحت اور خوشی ہے جیسا کہاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا؎ میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ 125۔ وَعَنْ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ سَعَادَۃِ ابْنِ اٰدَمَ رِضَاہُ بِمَا قَضَی اللہُ لَہٗ وَمِنْ شَقَاوَۃِ ابْنِ اٰدَمَ تَرْکُہُ اسْتِخَارَۃَ اللہِ وَمِنْ شَقَاوَۃِ ابْنِ اٰدَمَ سَخَطُہٗ بِمَا قَضَی اللہُ لَہٗ۔ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ؎ ترجمہ: حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کی نیک بختی یہ ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقدر کردیا ہے اس پر راضی رہے اور آدمی کی بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے خیر اور بھلائی کو مانگنا چھوڑ دے اور انسان کی بدبختی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اس کے مقدر میں لکھا ہے وہ اس سے غضب ناک اور ناخوش ہو۔ تشریح:آدمی کو چاہیے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرتا رہے اور پھر جو کچھ اللہ عطا فرمائیں اس پر راضی رہے، اور راضی ہونا قضائے الٰہی پر بڑی نعمت ہے اس مقام کا نام افخم ہے اور ابنِ آدم کے لیے یہ بڑی سعادت ہے کیوں کہ جب بندہ تقدیرِ الٰہی پر راضی رہتا ہے تو عبادت کے لیے فارغ رہتا ہے برعکس اس کے کہ ناراض ہو فیصلۂ الٰہی سے ہر وقت متفکر اور پریشان رہتا ہے کیوں کہ کوئی انسان مصائب اور حوادث سے خالی نہیں۔ اہل اللہ تسلیم ورضا کی برکت سے ہر حالت میں پُر سکون ہیں ؎ خوشا حوادثِ پیہم خوشا یہ اشکِ رواں جو غم کے ساتھ ہو تم بھی تو غم کا کیا غم ہے ------------------------------