رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ لَکَ وَلَوِاجْتَمَعُوْا عَلٰی اَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَّمْ یَضُرُّوْکَ اِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْاَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ۔ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِیُّ؎ ترجمہ:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے لڑکے ! اللہ کے احکام امرونہی کو محفوظ رکھ اللہ تعالیٰ تجھ کو اپنی حفاظت میں رکھے گا ( دنیا میں آفات ومکروہات سے اور عقبیٰ میں طرح طرح کے عذاب سے ) اور محفوظ رکھ تو اللہ کے حق کو ( یعنی اس کو ہمیشہ یاد رکھ اور اس کی قدرتوں میں غور و فکر کر اور اس کا شکر ادا کر ) تو اللہ کو اپنے سامنے پائے گا، اور جب تو سوال کا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے سوال کر اور جب تو مدد چاہے تو اللہ ہی سے مدد چاہ، اور یہ بات یاد رکھ کہ ساری مخلوق اگر جمع ہو کر تجھ کو کچھ نفع پہنچانا چاہے تو ہر گز تجھ کو نفع نہ پہنچا سکے گی مگر صرف اتنا جتنا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے مقدر میں لکھ دیا ہے اور اگر سب آدمی جمع ہو کر تجھ کو ضرر پہنچانا چاہیں تو ہر گز تجھے ضرر نہ پہنچاسکیں گے مگر صرف اتنا جتنا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے مقدر میں لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھا کر رکھ دیے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے۔ تشریح:اللہ تعالیٰ کو سامنے پاوے گا یعنی گویا کہ حق تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے کیوں کہ اگر تو نہیں دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ضرور اور بالیقین دیکھ رہے ہیں اور اس مراقبہ کا نام شریعت میں احسان ہے، اور اس مراقبہ اور فکر ودھیان کی برکت اور مشق سے جب ماسوی اللہ نظر سے فنا ہوجاوے تو یہ کمال ایمان ہے اور گویا کہ تو اس وقت حق تعالیٰ کو دیکھتا ہے پس پہلا حال مراقبہ کہلاتا ہے اور دوسرا حال مشاہدہ کہلاتا ہے۔ اور بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ جب تو اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ کی تو حق تعالیٰ تیری ہر حالت اور مشکل میں مدد فرمائیں گے اور اس کو آسان فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ ہی سے ہر حالت میں دعا کرے کہ حدیث میں وارد ہے جو اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا ہے اللہ تعالیٰ ------------------------------