رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومنِ قوی ( یعنی قوی ایمان واعتقاد وتوکل وجہاد اور صبر ونصیحت وتعلیم خیرکرنے میں ) بہتر اور اللہ کے نزدیک محبوب ہے مومن ضعیف سے اور ہر مومن میں (قوی ہو یا ضعیف ) نیکی ہے ۔ جو چیز تجھ کو نفع پہنچائے اس پر حرص کر ( یعنی امردین میں)اور( نیک عمل کرنے پر ) اللہ کی مدد وتوفیق طلب کر اور(طلبِ استعانعت سے) عاجز نہ ہو، اور جب تجھ کو کوئی مصیبت پہنچے تو یوں نہ کہہ کہ اگر میں اس طرح کرتا تو ایسا ہوتا بلکہ یوں کہہ کہ اللہ نے یہی مقدر کیا اور اللہ تعالیٰ جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے، اس لیے کہ ’’اگر ‘‘ کا لفظ شیطان کے کام کو کھولتا ہے۔اور دل میں وسوسہ پیدا کرتا ہے۔ تشریح:لفظ ’’اگر‘‘ اس لیے منع ہے کہ جو مقدر ہوتا ہے وہی ہوتا ہے اور شیطان لفظ ’’اگر‘‘سے مومن کے دل میں صدمہ وحسرت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللہُ لَنَا ۚ ہُوَ مَوۡلٰىنَا ۚ؎ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ فرمادیجیے کہ ہر گز ہم کو کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی ہے مگر وہ جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھا ہوا ہے ( اور وہ ہمارے لیے مضر نہیں،اس میں بھی کوئی حکمت ومصلحت وخیر ہے ) کیوں کہ وہ ہمارے مولیٰ ہیں۔ دوسریجگہارشادہے: لَوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ لَبَرَزَ الَّذِیۡنَ کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقَتۡلُ؎ اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تب بھی میدان میں آتے وہ لوگ جن کے لیے قتل مقدر ہوچکا ہے۔ اور لفظ ’’اگر‘‘ کے استعمال سے منع کرنا تنزیہی ہے تحریمی نہیں، اور یہ تنزیہی نہی بھی جب ہے جب کہ معارضہ تقدیر کا ہو اور وہاں کوئی نفع نہ ہو ۔ لیکن اگر ازراہ تأسف وندامت کے اس لفظ کو استعمال کرے جیسا کہ طاعتِ الٰہی کے فوت ہونے پر صالحین سے ثابت ہے تو کوئی مضایقہ نہیں بلکہ باعثِ ثواب ہے۔ ------------------------------