رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
تشریح :یہ مثال محض سمجھانے کے لیے ہے کہ دنیا آخرت کے مقابلے میں کس قدربے وقعت ہے۔ ورنہ حقیقت کے اعتبار سے دنیا کی اتنی بھی وقعت اور قیمت اور نسبت آخرت کے مقابلے میں نہیں ہے جتنا کہ انگلی کو دریا میں ڈال کر نکالنے کے بعد پانی کی تری کو دریا سے ہے۔ پس اس مثال کا مقصود تفہیم کو آسان کرنا ہے۔ ورنہ دنیا متناہی محدود کو آخرت غیر متناہی غیر محدود سے کیا نسبت؟ دنیا کی نعمت پر نہ مغرور ہو اور نہ یہاں کی تکلیف کا شکوہ کرے،اور کہے جیسا کہ فرمایا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اَللّٰھُمَّ لَاعَیْشَ اِلَّا عَیْشُ الْاٰخِرَۃِ؎یہ کلمہ آپ نے دو مرتبہ فرمایا:ایک دفعہ یوم الاحزاب میں اور دوسری دفعہ حجۃ الوداع پر۔؎ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ نہیں ہے کوئی عیش مگر آخرت کا عیش۔ 3- وَعَنْ جَابِرٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِجَدْیٍ اَسَکَّ مَیِّتٍ قَالَ اَیُّکُمْ یُحِبُّ اَنَّ ھٰذَا لَہٗ بِدِرْھَمٍ ، فَقَالُوْا:مَانُحِبُّ اَنَّہٗ لَنَابِشَیْءٍ، قَالَ: فَوَاللہِ لَلدُّنْیَااَھْوَنُ عَلَی اللہِ مِنْ ھٰذَا عَلَیْکُمْ ؎ ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بکری کے بچے کے پاس سے گزرے جس کے کان چھوٹے یا کٹے ہوئے تھے اور مرا ہوا تھا، ارشاد فرمایا: تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ اس کو ایک درہم کے عوض میں لے لے، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ ہم اس کو کسی چیز کے بدلے میں نہیں لینا چاہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہےخداوندتعالیٰ کی! یہ دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہےجتنا کہ تمہاری نظر میںیہ بچہ بکری کا ذلیل ہے۔ تشریح:مقصود اس حدیث سے بے رغبت کرنا ہے دنیا سے اور راغب کرنا ہے آخرت کی طرف کیوں کہ دنیا کی محبت ہر گناہ کا سر ہے اور ترکِ محبتِ دنیا ہر عبادت کا سر ہے۔ دنیا کا عاشق اگر دین کے کام میں بھی مشغول ہوتا ہے تو اس کی غرض فاسد ہوتی ہے اور دنیا سے ------------------------------