رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
کا دروازہ کھولا ( یعنی بغیر حاجت وضرورت محض زیادتیٔ مال کی غرض سے لوگوں سے مانگنا شروع کیا ) اللہ تعالیٰ اس کے لیے فقر وافلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے ( کہ طرح طرح کی حاجتیں اس کو پیش آتی ہیں یا اس سے وہ نعمت چھین لیتا ہے جو اس کے پاس ہے جس سے وہ نہایت خرابی میں پڑجاتا ہے ) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس حدیث کا میں نے ذکر کیا تھا اب اس کا بیان کرتا ہوں اس کو یاد رکھو۔ دنیا چار آدمیوں کے لیے ہے: ایک تو اس بندے کے لیے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال اور علم عطا فرمایا پس وہ مال کو خرچ کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ( اور حرام کاموں میں خرچ نہیں کرتا ) اور رشتہ داروں سے سلوک کرتا ہے اور اس مال میں سے مال کے حق کے موافق اللہ کے لیے خرچ کرتا ہے ( مثل زکوٰۃ اور کفارات اور ضیافت وصدقات) اس شخص کا بڑا درجہ ہے اور دوسرا وہ بندہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم عطا فرمایا اور مال عطا نہیں فرمایا یہ بندہ علم کے سبب سچی نیت رکھتا ہے اور یہ آرزو کرتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں شخص کی طرح اس کو نیک کاموں میں خرچ کرتا اس کو بھی پہلے بندے کی مانند اجر ملے گا اور ثواب میں دونوں برابر ہوں گے۔ اور تیسرا بندہ وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور علم نہیں دیا پس علم نہ ہونے کے سبب وہ اپنے مال کو بُری طرح خرچ کرتا ہے، نہ تو خرچ کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، نہ رشتہ داروں سےاچھا سلوک کرتا ہے، نہ اللہ تعالیٰ کا حق اپنے مال سے نکالتا ہے، نہ بندوں کا حق ادا کرتا ہے، یہ بندہ بدترین مرتبہ کا ہے۔ اور چوتھا بندہ وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال بھی نہیں دیا۔ اور علم بھی نہیں دیا وہ کہتا ہے اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں شخص کی طرح خرچ کرتا ( یعنی بُرے کاموں میں ) یہ بندہ اپنی نیت کے سبب مغلوب ہے اور اس کا گناہ تیسرے شخص کے گناہ کے مانند ہے۔ تشریح:یہاں نیت سے مراد عزمِ معصیت ہے۔ آدمی گناہ کے ارادے پر پکڑا جاتا ہے۔ اور عزم وارادہ سے یہاں مراد یہ ہے کہ اس کی طرف سے گناہ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی مگر اس کو کوئی مجبوری پیش آئی جس سے گناہ پر قدرت نہ پاسکا اور اگر قدرت پاتا تو ضرور گناہ کرلیتا۔ پس زنا کا ارادہ کیا تو اس ارادے کا گناہ ملے گا البتہ زناکے ارادے کا گناہ زنا کے برابر نہیں ہے۔