رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
مشغول ہوتا ہے اور اس طرح عمل میں سستی اور تاخیر کرتا رہتا ہے کہ اچانک اسے موت آکر اعمال سے محروم کرکے دنیا سے لے جاتی ہے ۔ پس اس نادانی سے ہوشیاری ضروری ہے۔ 103۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَرَزَ عُوْدًا بَیْنَ یَدَیْہِ وَاٰخَرَ اِلٰی جَنْبِہٖ واٰخَرَ اَبْعَدَ فَقَالَ اَتَدْرُوْنَ مَاھٰذَا قَالُوْا اَللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ قَالَ ھٰذَا الْاِنْسَانُ وَھٰذَا الْاَجَلُ اُرَاہُ قَالَ وَھٰذَا الْاَمَلُ فَیَتَعَاطَی الْاَمَلُ فَلَحِقَہُ الْاَجَلُ دُوْنَ الْاَمَلِ۔ رَوَاہُ فِیْ شَرْحِ السُّنَّۃِ؎ ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سامنے ایک لکڑی زمین میں گاڑ ی پھر ایک لکڑی اس لکڑی کے پہلو میں اور ایک لکڑی ان سے بہت دور نصب کی اور پھر فرمایا: تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لکڑی ( یعنی پہلی لکڑی ) انسان ہے اور یہ لکڑی ( دوسری جو اس کے پہلو میں ہے) موت ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ تیسری لکڑی کی نسبت میرا یہ خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا اور یہ اُمید ہے، انسان اُمید اور آرزوؤں میں گرفتار رہتا ہے کہ موت آرزوؤں کے ختم ہونے سے پہلے آجاتی ہے۔ تشریح:پس اُمیدوں کے ساتھ پوری طرح عمل کی فکر ومحنت بھی کرتا رہے تاکہ موت جب آوے تو عمل کی حسرت نہ رہے اور آخرت کا نقصان نہ ہو۔ 104۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَعْمَارُ اُمَّتِیْ مَابَیْنَ السِّتِّیْنَ اِلٰی سَبْعِیْنَ وَاَقَلُّھُمْ مَنْ یَّجُوْزُ ذٰلِکَ؎ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت کی عمریں ساٹھ اور ستر سال کے درمیان میں ہیں اور ------------------------------