رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
اگر ان چاروں باتوں پریقین ایسا حاصل ہو جو دل میں اتر جاوے تو انسان آخرت کے اعمال کے لیے فارغ ہوجاتا ہے اور غفلت اورسستی سے ہلاک نہیں ہوتا۔ یہ ارشاد شیخ عبد الوہاب متقی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جس کو صاحب مظاہر حق نے نقل کیا ہے۔ اور شیخ قطبِ وقت امام ابو الحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے سالک کو دو باتیں حجاب میں رکھتی ہیں ایک رزق کی فکر، دوسرے خوف کرنا مخلوق سے۔ 106۔وَعَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ قَالَ لَیْسَ الزُّھْدُ فِی الدُّنْیَا بِلُبْسِ الْغَلِیْظِ وَالْخَشِنِ وَاَکْلِ الْجَشَبِ اِنَّمَا الزُّھْدُ فِی الدُّنْیَاقَصْرُ الْاَمَلِ؎ ترجمہ: حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ دنیا میں زہد اس کا نام نہیں کہ موٹے اور سخت کپڑوں کو پہن لیا جائے اور بے مزہ کھانا کھالیا جائے بلکہ زہد حقیقت میں آرزوؤں کی کمی کا نام ہے ۔ تشریح :پس زہد کا مفہوم قلب کا دنیا سے بے زار ہونا اور آخرت کی طرف راغب رہنا ہے یعنی دنیا اس کے پاس ہو لیکن دل میں نہ ہو وہ زاہد ہے، اور اگر دنیا پاس نہیں ہے مگر دل میں حرصِ دنیا گھسی ہوئی ہے تو یہ شخص زاہد نہیں ۔ جس طرح کشتی کے نیچے پانی مضرنہیں بلکہ اس کی روانی کا ذریعہ ہے لیکن پانی کا کشتی کے اندر گھسنا اس کے ڈبونے اور ہلاکت کا سبب ہے۔ اسی لیے فرمایا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ؎ ترجمہ: مالِ صالح اچھا ہے مردِ صالح کے لیے ۔ یعنی صالح آدمی کے پاس جو مال ہوتا ہے وہ صحیح مصرف میں استعمال ہونے سے وہ بھی صالح ہوجاتا ہے۔ پس بعض صوفیا نے اپنے نفس کو حقیر رکھنے کے لیے عوام جیسا لباس پہنا ہے اوربعض نے امیروں کا لباس پہنا ہے اپنا حال چھپانے کے لیے ۔ لیکن ------------------------------