رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
آں درختِ بدقوی ترمی شود برکنندہ پَیر ومضطرمی شود ترجمہ:بُرائی کا درخت تو مضبوط ہوتا ہے اور اکھاڑنے والا روز بروز بوڑھا اورکمزور ہوتا جاتا ہے۔ 96۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَایَزَالُ قَلْبُ الْکَبِیْرِ شَابًّا فِی اثْنَیْنِ فِیْ حُبِّ الدُّنْیَا وَطُوْلِ الْاَمَلِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ؎ ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا بوڑھے کا دل ہمیشہ دو باتوں میں جوان رہتا ہے یعنی دنیا کی محبت میں اور آرزو کی درازی میں۔ تشریح: دنیا کی محبت کے سبب اس کو موت سے کراہت ہوتی ہے اور آرزو کی درازی سے نیک اعمال میں تاخیر کرتا ہے۔ 97۔وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَعْذَرَ اللہُ اِلَی امْرِءٍ اَخَّرَ اَجَلَہٗ حَتّٰی بَلَّغَہٗ سِتِّیْنَ سَنَۃً۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ؎ ترجمہ:اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آدمی کے لیے اللہ تعالیٰ نے عذر کا کوئی موقع نہیں رکھا جس کی موت میں مہلت دی یہاں تک کہ ساٹھ سال کی عمر عطا فرمائی۔ تشریح: یعنی اتنی عمر بخشی اور فرصت دی اور پھر بھی توبہ اور عذر خواہی اپنے رب سے نہ کی اور نہ گناہ چھوڑا ۔ آخر عذر کے لیے کیا گنجایش اب اس کے پاس ہے جو کہتا ہے کہ جب بڈھا ہوں گا تو توبہ کرلوں گا۔ اس حدیث سے ۶۰ برس کی عمر والے بوڑھوں کو عمل کی فکر تیز کردینی چاہیے اور عمل کا احساس پیدا ہوجانا چاہیے۔ ------------------------------