رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
اور درمیانی خط میں دونوں طرف جو چھوٹے چھوٹے خط ہیں وہ عوارض ہیں ( یعنی آفات وبلیات وامراض وغیرہ جوہر جانب سے آدمی پر متوجہ ہیں کہ اس کو پیش آویں اور ہلاک کریں )پس اگر ایک عارضہ اور حادثہ سے انسان بچ گیا تو پھر دوسرا ہے اور دوسرے سے بچ گیا تو تیسرا ہے ( اسی طرح متعدد عوارض وحوادث تاک میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ موت آجاتی ہے۔) تشریح: حاصل یہ کہ آدمی اُمیدیں دراز رکھتا ہے ۔ اور ایک آرزو پوری ہوجاتی ہے تو دوسری آرزو کو پورا کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے اور ان ہی اُمیدوں میں پھنس کر آخرت کی تیاری سے غافل رہتا ہے کہ اچانک اسے موت پکڑ لیتی ہے اور بہت سی تمناؤں کو خاک میں ملادیتی ہے۔ ’’ا ے بسا آرزو کہ خاک شدہ ‘‘ پس عقل مند وہ ہے جو آخرت کے کاموں میں غفلت نہ کرے اور اپنے اعمال کو درست رکھے۔ 95۔ وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَھْرَمُ ابْنُ اٰدَمَ وَیَشِبُّ مِنْہُ اثْنَانِ الْحِرْصُ عَلَی الْمَالِ وَالْحِرْصُ عَلَی الْعُمْرِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ؎ ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان بوڑھا ہوتا ہے اور دو چیزیں اس میں جوان ہوتی ہیں یعنی مال اور عمر کی زیادتی کی حرص۔ تشریح:انسان بوڑھا ہوتا ہے تو اس کی قوت اور ارادے میں کمزوری آجاتی ہے اور مال اور عمر کی حرص قوی تر ہوجاتی ہے جیسا کہ حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ بینحہائے خوئے بدمحکم شدہ قوتِ برکندنِ اوکم شدہ ترجمہ: بُری عادتوں کی جڑیں تو مضبوط ہوگئیں اور ان کو اکھاڑنے والی قوت گھٹ گئی اور کمزور پڑگئی ؎ ------------------------------