اہل اللہ اور صراط مستقیم |
ہم نوٹ : |
|
کردیتا ہو۔20؎ ابھی کل میں نے کچھ عرب کے لوگوں کے سامنے یہ تعریف پیش کی تو ایک الجزائری نے پوچھا کہ میں دنیا تو اللہ پر فدا کرسکتا ہوں فَکَیْفَ اَفْدِی الْاٰخِرَۃَ لیکن آخرت کو کوئی انسان کس طرح فدا کرسکتا ہے؟ آخرت کو اللہ پر فدا کرنے کے معنیٰ میں نے جواب دیا کہ آخرت کو فدا کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ نیک کام اللہ کی رضا کے لیے کرو، جنت کی لالچ میں نہ کرو۔ اللہ کی رضا درجۂ اوّلیں میں ہو، جنت کو درجۂ ثانوی میں کرلو۔ نیت یہ ہو کہ اے اللہ! میں یہ عمل جنت کے لیے نہیں کررہا ہوں آپ کو خوش کرنے کے لیے کررہا ہوں، لیکن چوں کہ جنت آپ کا محل لقاء اورمحل دیدار ہے اس لیے جنت کا بھی سوال کرتا ہوں لیکن مقصود آپ کی رضا ہے، بس آپ نے آخرت فدا کردی، جنت کو اللہ پر فدا کردیا۔ اور دوزخ کے ڈر سے گناہ مت چھوڑو، اللہ کی ناراضگی کے خوف سے چھوڑو۔ خدائے تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے گناہ چھوڑو اور جہنم کو درجۂ ثانوی میں کرلو، ان شاء اللہ تعالیٰ آپ نے جنت و جہنم اور آخرت کو فدا کردیا۔ یہ سن کر اس عرب نے کہا سبحان اللہ! اور بہت خوش ہوا۔ اور یہ میں نے کہاں سے حاصل کیا؟ اللہ تعالیٰ نے براہِ راست دل میں یہ شرح عطا فرمائی۔ اس کے بعد حدیث پاک کی دلیل بھی مل گئی۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ اے خدا! میں تجھ سے تیری رضا اور تیری خوشی مانگتا ہوں اور جنت کو بعد میں مانگتا ہوں۔ جنت کو بعد میں بیان کیا۔ پہلے کیا مانگا سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ رِضَاکَ اے اللہ! میں تیری رضا چاہتا ہوں، وَالْجَنَّۃَ اور جنت بھی۔ جنت کو درجۂ ثانوی کیا۔ اور وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ سَخَطِکَ میں تیری ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں وَالنَّارِ اور دوزخ سے۔21؎دوزخ کو درجۂ ثانوی کیا، پہلے اللہ کی ناراضگی سے پناہ مانگی۔ اس حدیث سے اختر نے یہ سمجھا کہ آخرت کو یوں فدا کیا جاتاہے۔ بس صدیق کی آخری تعریف ہے اَلَّذِیْ یَبْذُلُ الْکَوْنَیْنِ فِیْ رِضَاءِ مَحْبُوْبِہٖ جواللہ پر دونوں جہاں فدا کردے۔ _____________________________________________ 20؎روح المعانی :78/13، یوسف(46)،داراحیاء التراث، بیروت 21؎المسندامام الشافعی :123