Deobandi Books

اہل اللہ اور صراط مستقیم

ہم نوٹ :

35 - 38
کردیتا ہو۔20؎ ابھی کل میں نے کچھ عرب کے لوگوں کے سامنے یہ تعریف پیش کی تو ایک الجزائری نے پوچھا کہ میں دنیا تو اللہ پر فدا کرسکتا ہوں فَکَیْفَ اَفْدِی الْاٰخِرَۃَ لیکن آخرت کو کوئی انسان کس طرح فدا کرسکتا ہے؟
آخرت کو اللہ پر فدا کرنے کے معنیٰ
میں نے جواب دیا کہ آخرت کو فدا کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ نیک کام اللہ کی رضا کے لیے کرو، جنت کی لالچ میں نہ کرو۔ اللہ کی رضا درجۂ اوّلیں میں ہو، جنت کو درجۂ ثانوی میں کرلو۔ نیت یہ ہو کہ اے اللہ! میں یہ عمل جنت کے لیے نہیں کررہا ہوں آپ کو خوش کرنے کے لیے کررہا ہوں، لیکن چوں کہ جنت آپ کا محل لقاء اورمحل دیدار ہے اس لیے جنت کا بھی سوال کرتا ہوں لیکن مقصود آپ کی رضا ہے، بس آپ نے آخرت فدا کردی، جنت کو اللہ پر فدا کردیا۔ اور دوزخ کے ڈر سے گناہ مت چھوڑو، اللہ کی ناراضگی کے خوف سے چھوڑو۔ خدائے تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے گناہ چھوڑو اور جہنم کو درجۂ ثانوی میں کرلو، ان شاء اللہ تعالیٰ آپ نے جنت و جہنم اور آخرت کو فدا کردیا۔ یہ سن کر اس عرب نے کہا سبحان اللہ! اور بہت خوش ہوا۔ اور یہ میں نے کہاں سے حاصل کیا؟ اللہ تعالیٰ نے براہِ راست دل میں یہ شرح عطا فرمائی۔ اس کے بعد حدیث پاک کی دلیل بھی مل گئی۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ  اے خدا! میں تجھ سے تیری رضا اور تیری خوشی مانگتا ہوں اور جنت کو بعد میں مانگتا ہوں۔ جنت کو بعد میں بیان کیا۔ پہلے کیا مانگا سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے؟اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ رِضَاکَ اے اللہ! میں تیری رضا چاہتا ہوں،وَالْجَنَّۃَ  اور جنت بھی۔ جنت کو درجۂ ثانوی کیا۔ اور وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ سَخَطِکَ میں تیری ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں وَالنَّارِ اور دوزخ سے۔21؎دوزخ کو درجۂ ثانوی کیا، پہلے اللہ کی ناراضگی سے پناہ مانگی۔ اس حدیث سے اختر نے یہ سمجھا کہ آخرت کو یوں فدا کیا جاتاہے۔ بس صدیق کی آخری تعریف ہے اَلَّذِیْ یَبْذُلُ الْکَوْنَیْنِ فِیْ رِضَاءِ مَحْبُوْبِہٖ جواللہ پر دونوں جہاں فدا کردے۔
_____________________________________________
20؎  روح المعانی :78/13، یوسف(46)،داراحیاء التراث، بیروت
21؎  المسندامام الشافعی :123
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 عرضِ مرتب 7 1
3 اَلْحَمْدُ لِلہْ کی چار تفسیریں 9 1
4 معرفتِ الٰہیہ کا تعلق ربوبیتِ الٰہیہ سے 10 1
5 تفکر فی المخلوقات سے استدلالِ توحید پر مغفرت 11 1
6 قرآنِ پاک میں عاشقانِ حق کی شان 12 1
7 تفکر فی خلق اللہ شیوۂ خاصانِ خدا 12 1
8 دین پر ثبات قدمی کی مسنون دعا 13 1
9 اعمال میں کمیت و کیفیت دونوں مطلوب ہیں 14 1
10 حصولِ رحمت کی دعا 14 1
11 توبہ کی تیز رفتاری 15 1
12 عدم استحضارِ معیّتِ الٰہیہ جرأت علی المعصیت کاسبب ہے 15 1
13 رحمتِ حق کو متوجہ کرنے والا عجیب عنوانِ دعا 16 1
14 دل کو اللہ کے لیے خالی کرلیا 17 1
15 علامتِ قہرِ الٰہی 18 1
16 علامتِ مردودیت 18 1
17 گناہوں پر ندامت علامتِ قبولیت ہے 18 1
18 مناجات و ذکر و تلاوت کے فوائد 19 1
19 تلاوت کا خاص اہتمام چاہیے 19 1
20 معیتِ حق کا کمالِ استحضار اور اس کی مثال 19 1
21 ذکر برائے خالق، فکر برائے مخلوق 20 1
22 ممانعتِ تفکر فی اللہ کی حکمت 21 1
23 ربوبیتِ الٰہیہ کا رحمتِ الٰہیہ سے ربط 22 1
24 مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنْ میں شانِ عظمت و شانِ رحمتِ الٰہیہ کا ظہور ہے 22 1
25 مراحِم خسروانہ 22 1
26 نفس و شیطان کی غلامی سے آزادی کی درخواست 23 1
27 اشتغال باللذائذ مانعِ قرب ہے اور اس کی تمثیل 24 1
28 صراطِ مستقیم منعم علیہم کا راستہ ہے 24 1
29 انعام یافتہ بندے کون ہیں؟ 24 1
30 صراطِ مستقیم کے لیے منعم علیہم بندوں کی رفاقت شرط ہے 25 1
31 صراطِ منعم علیہم صراطِ مستقیم کا بدل الکل ہے 26 1
32 کلام اللہ کا اعجازِ بلاغت اور علمائے نحو کی حیرانی 26 1
33 منعم علیہم اپنے اور مغضوب علیہم غیر ہیں 27 1
34 غیروں سے دل لگانے والا محروم رہتا ہے 28 1
35 صراطِ مستقیم کے لیے مغضوب علیہم سے دوری بھی ضروری ہے 28 1
36 نبی کی تعریف 29 1
37 شہید کی تعریف 30 1
38 صالحین کی تعریف 30 1
39 کریم کی شرح 31 1
40 اولیاء اللہ کا سب سے بڑا درجہ صدیقین کا ہے 32 1
41 صدیقین کی تعریف 33 1
42 جس کا قال اور حال ایک ہو 33 41
43 جس کا باطن ظاہری حالات سے متأثر نہ ہو 34 41
44 دونوں جہاں خدا پر فدا کرنے والا 34 41
45 آخرت کو اللہ پر فدا کرنے کے معنیٰ 35 41
Flag Counter