اہل اللہ اور صراط مستقیم |
ہم نوٹ : |
|
کہ اے خدا! ہم تو ہرن کے شکار کے لیے چلے تھے یعنی آپ تک پہنچنے کے لیے لیکن یہ مجھ کو کیا ہوگیا کہ نفس کے چنگل میں پھنس کر آپ سے اب تک دور پڑا ہوا ہوں۔ اشتغال باللذائذ مانعِ قرب ہے اور اس کی تمثیل مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انگور کھانے کے لیے ایک کیڑا چلا لیکن ظالم ایک پتّا ہرا ہرا دیکھ کر یہ سمجھا کہ شاید یہی انگور ہے، ساری زندگی اس پتّے کو کھاتا رہا ، انگور کے درخت کے ہرے پتّے کو، اور وہیں مرگیا، اسی پتّے پر قبرستان بنالیا۔ اگر یہ ظالم ہرے پتّے کی رنگینیوں میں مبتلا نہ ہوتا، اس سے صَرفِ نظر کرکے، اپنی نگاہ کی حفاظت کرکے آگے بڑھتا تو انگور پاجاتا۔ اگر ہم مرنے والی لاشوں سے اپنی نگاہوں کو بچاکر آگے بڑھ جائیں تو ہمیں اللہ مل جائے مگر ان مردہ لاشوں میں نفس و شیطان ہمیں مبتلا کرکے اللہ کے قرب کے انگور سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ جو مضمون پیش کررہا ہوں یہ جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کا فارسی زبان میں ہے جس کو اختر آپ کے سامنے اُردو زبان میں پیش کررہا ہے۔ لہٰذا آج سے ارادہ کرلیجیے کہ پتّوں پر جان نہیں دیں گے، ان لاشوں سے، ان حسینوں سے آگے بڑھ جائیں گے اور ہمیں اللہ کے قرب کا انگور نصیب ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ صراطِ مستقیم منعم علیہم کا راستہ ہے اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ اے اللہ! ہم کو سیدھا راستہ دکھا۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں صراطِ مستقیم کیا ہے؟ اس کا بدل صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ہے، یعنی اے اللہ! جن پر آپ نے انعام نازل کیا، جو آپ کے پیارے بندے ہیں ان کا راستہ دکھا۔ یہ اللہ تعالیٰ نازل فرمارہے ہیں کہ سیدھے راستے کا خواب مت دیکھنا خالی کتابوں سے ، سیدھے راستے کا خواب مت دیکھنا اسبابِ دنیویہ سے، سیدھا راستے ان کا ہے جن کو میں نے انعام سے نوازا ہے، جو میرے مقرّب بندے ہیں۔ انعام یافتہ بندے کون ہیں؟ اب انعام کیا ہے؟ کلفٹن کے بنگلے؟ نہیں! کباب اور بریانیاں؟ نہیں! پھر انعام کیا