اہل اللہ اور صراط مستقیم |
ہم نوٹ : |
|
ہے؟ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ میں نے جن پر انعام نازل کیا وہ انعام کیا ہے؟ مِنَ النَّبِیّٖنَ جن کو نبوت عطا کی، وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ جن کو اپنا صدیق بنایا، وَ الشُّہَدَآءِ جن کو جامِ شہادت نوش کرنے کا شرف بخشا، وَ الصّٰلِحِیۡنَ جن کو نیک اور صالح بنایا۔16؎ تو نبوت، صدیقیت، شہادت اور صالحیت چار نعمتیں جن کو حاصل ہیں سیدھے راستےسے ان کا راستہ مراد ہے ؎مستند رستے وہی مانے گئے جن سے ہوکر تیرے دیوانے گئے ان کا راستہ ہی صراطِ مستقیم ہے جو اللہ تک پہنچاتا ہے، جو ان کی راہ پر نہ چلے گا اللہ تک نہیں پہنچ سکتا، واپس کردیا جائے گا ؎لوٹ آئے جتنے فرزانے گئے تا بہ منزل صرف دیوانے گئے صراطِ مستقیم کے لیے منعم علیہم بندوں کی رفاقت شرط ہے ان سے تعلق قائم کرو وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بہترین رفیق ہیں۔ جملہ خبر یہ صورتِ امر میں ہے یعنی ہے تو خبر مگر اندر انشاء پوشیدہ ہے یعنی جب تم ان اللہ والوں کو، ان انعام یافتہ لوگوں کو اپنا رفیق، اپنا ساتھی بناؤ گے تب جاکر تم کو صراطِ مستقیم ملے گی اور تب خدا ملے گا لہٰذا ان کو اپنا رفیق بنالو۔ علامہ محمود نسفی نے تفسیر’’خازن‘‘ میں لکھا ہے کہ یہاں وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا معنیٰ میں افعالِ تعجب کے ہے، یعنی مَااَحْسَنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا کیا ہی پیارےیہ رفیق ہیں۔17؎ یہ حَسُنَ معنیٰ میں مَااَحْسَنَ کے ہے مَا اَحْسَنَہٗ وَاَحْسِنْ بِہٖ مَااَفْعَلَہٗ وَاَفْعِلْ بِہٖ دو صیغے افعالِ تعجب کے ہیں۔ مطلب یہ کہ سبحان اللہ! کتنے پیارے لوگ ہیں یہ اللہ والے۔ اس _____________________________________________ 16؎النسآء: 69 17؎تفسیر النسفی:237/1 ،النسآء(69)