Deobandi Books

اہل اللہ اور صراط مستقیم

ہم نوٹ :

11 - 38
تفکر فی المخلوقات سے استدلالِ توحید پر مغفرت
روایت میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ بدوی تھے آسمان کے نیچے گاؤں میں لیٹنے کی عادت ہوتی ہے، گاؤں میں لیٹے ہوئے تھے۔ آسمان کی طرف دیکھا اور یہ کہایَااَیُّھَا السَّمَاءُ  وَالنُّجُوْمُ اِنَّ لَکِ رَبًّا وَّخَالِقًا  اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْاے آسمانو، اے ستارو! تمہارا کوئی پیدا کرنے والا ہے؟ کوئی رب ہے؟ کوئی تمہارا خالق ہے؟ پھر اس نے کہا اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ اے اللہ! مجھ کو بخش دیجیے۔ اسی وقت وحی نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ اپنے اس اُمّتی کو خوشخبری سنادیں کہ میں نے اس کے اس استدلالِ توحید کو قبول کرلیا کہ اس نے مجھے کس طرح سے پہچانا۔ اے آسمانو، اے ستارو! تمہارا کوئی رب اور پیدا کرنے والا ہے؟ اے اللہ! مجھ کو بخش دیجیے۔تو ایک دیہاتی اور بدوی کے اس استدلال کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرماکر اس کی مغفرت فرمادی۔ میں آپ لوگوں سے بھی یہ کہتا ہوں کہ کبھی تو ایسے ستارے نظر آتے ہیں یا نہیں؟ راتوں میں کبھی آپ بھی یہی گفتگو کرکے اپنی مغفرت کا سامان کرلیجیے۔ اگرعربی کی عبارت یاد نہ ہو تو اُردو میں کہہ لیجیے کہ اے آسمانو، اے ستارو! تمہارا کوئی پیدا کرنے والا ہے اور رب ہے؟ ایک جملہ اس میں پوشیدہ ہے کہ وہی ہمارا بھی خالق ہے، ہمارا بھی وہی پالنے والا ہے۔ پھر کہیےاَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ  اے اللہ! ہم کو بخش دیجیے۔ ان الفاظ میں مغفرت کا سامان ہے، شاپنگ کرلیجیے۔ آج کل بازاروں میں سودا خریدتے ہو، بس اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا سودا خریدلو۔ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے قبولیت کا اثر، مغفرت کا اثر رکھا ہوا ہے۔ لہٰذا جب آسمان پر نظر ہو ستارے نظر آئیں تو جو عربی داں ہیں، مولانا لوگ ہیں وہ تو یہ کہہ دیں یَااَیُّھَا السَّمَاءُ  وَالنُّجُوْمُ اِنَّ لَکِ رَبًّا وَّخَالِقًا  اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ6؎  اور جو عربی نہیں جانتے وہ اردو میں کہہ لیں کہ اے آسمانو اور ستارو! تمہارا کوئی پیدا کرنے والا اور پالنے والا ہے،       اے خدا! ہم کو بخش دیجیے۔ اِن شاء اللہ مغفرت ہوجائے گی۔کیوں کہ اللہ کی رحمت کے دروازے قیامت تک کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔
_____________________________________________
6؎   روح المعانی:159/4،اٰل عمرٰن (191)،داراحیاءالتراث، بیروت
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 عرضِ مرتب 7 1
3 اَلْحَمْدُ لِلہْ کی چار تفسیریں 9 1
4 معرفتِ الٰہیہ کا تعلق ربوبیتِ الٰہیہ سے 10 1
5 تفکر فی المخلوقات سے استدلالِ توحید پر مغفرت 11 1
6 قرآنِ پاک میں عاشقانِ حق کی شان 12 1
7 تفکر فی خلق اللہ شیوۂ خاصانِ خدا 12 1
8 دین پر ثبات قدمی کی مسنون دعا 13 1
9 اعمال میں کمیت و کیفیت دونوں مطلوب ہیں 14 1
10 حصولِ رحمت کی دعا 14 1
11 توبہ کی تیز رفتاری 15 1
12 عدم استحضارِ معیّتِ الٰہیہ جرأت علی المعصیت کاسبب ہے 15 1
13 رحمتِ حق کو متوجہ کرنے والا عجیب عنوانِ دعا 16 1
14 دل کو اللہ کے لیے خالی کرلیا 17 1
15 علامتِ قہرِ الٰہی 18 1
16 علامتِ مردودیت 18 1
17 گناہوں پر ندامت علامتِ قبولیت ہے 18 1
18 مناجات و ذکر و تلاوت کے فوائد 19 1
19 تلاوت کا خاص اہتمام چاہیے 19 1
20 معیتِ حق کا کمالِ استحضار اور اس کی مثال 19 1
21 ذکر برائے خالق، فکر برائے مخلوق 20 1
22 ممانعتِ تفکر فی اللہ کی حکمت 21 1
23 ربوبیتِ الٰہیہ کا رحمتِ الٰہیہ سے ربط 22 1
24 مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنْ میں شانِ عظمت و شانِ رحمتِ الٰہیہ کا ظہور ہے 22 1
25 مراحِم خسروانہ 22 1
26 نفس و شیطان کی غلامی سے آزادی کی درخواست 23 1
27 اشتغال باللذائذ مانعِ قرب ہے اور اس کی تمثیل 24 1
28 صراطِ مستقیم منعم علیہم کا راستہ ہے 24 1
29 انعام یافتہ بندے کون ہیں؟ 24 1
30 صراطِ مستقیم کے لیے منعم علیہم بندوں کی رفاقت شرط ہے 25 1
31 صراطِ منعم علیہم صراطِ مستقیم کا بدل الکل ہے 26 1
32 کلام اللہ کا اعجازِ بلاغت اور علمائے نحو کی حیرانی 26 1
33 منعم علیہم اپنے اور مغضوب علیہم غیر ہیں 27 1
34 غیروں سے دل لگانے والا محروم رہتا ہے 28 1
35 صراطِ مستقیم کے لیے مغضوب علیہم سے دوری بھی ضروری ہے 28 1
36 نبی کی تعریف 29 1
37 شہید کی تعریف 30 1
38 صالحین کی تعریف 30 1
39 کریم کی شرح 31 1
40 اولیاء اللہ کا سب سے بڑا درجہ صدیقین کا ہے 32 1
41 صدیقین کی تعریف 33 1
42 جس کا قال اور حال ایک ہو 33 41
43 جس کا باطن ظاہری حالات سے متأثر نہ ہو 34 41
44 دونوں جہاں خدا پر فدا کرنے والا 34 41
45 آخرت کو اللہ پر فدا کرنے کے معنیٰ 35 41
Flag Counter