اہل اللہ اور صراط مستقیم |
ہم نوٹ : |
|
قرآنِ پاک میں عاشقانِ حق کی شان تو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مخلوقات میں فکر کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یَذۡکُرُوۡنَ اللہَ قِیَامًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ 7؎ میرے خاص بندے جب اُٹھتے ہیں تو کہتے ہیں اللہ، جب بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں اللہ، جب کروٹ بدلتے ہیں تو کہتے ہیں اللہ۔آہ! یہ کیا معنیٰ ہیں؟یہ عشق و محبت سکھارہے ہیں کہ عاشقوں کا شیوہ یہی ہونا چاہیے کہ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے وہ ہم کو یاد کرتے رہیں۔اگرمچھلی ایک سیکنڈ کے لیے دریا سے الگ ہوجائے گی تو مچھلی کی موت ہے، اگر تم ہم کو ایک لمحہ کو بھول جاؤگے تو اے انسانو! تمہاری موت ہوجائے گی۔موتِ ایمانی ہوجائے گی۔جانوربھی تو زندہ ہے، جانوروں کی طرح زندہ رہوگے لیکن ایمانی زندگی تمہاری باقی نہیں رہے گی۔تو اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کی نشانی بتارہے ہیں کہ وہ ہر حالت میں مجھے یاد رکھتے ہیں۔ کیا معنیٰ کہ میری فرماں برداری سے مجھے خوش رکھتے ہیں اور نافرمانی کرکے مجھے ناراض نہیں کرتے۔یہ معنیٰ ہیں ذکر کے۔اس کے بعد فرمایا کہ میرے خاص بندے ذکر کے ساتھ ساتھ ایک کام اور کرتے ہیں۔ تفکر فی خلق اللہ شیوۂ خاصانِ خدا وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ 8؎ کہ آسمانوں میں، زمینوں میں، سمندر میں، اللہ کی مخلوق میں غور کرتے ہیں کہ کیا شان ہے اس کی! اتنی بڑی دنیا جس پر ہم بیٹھے ہیں چوبیس ہزار میل کا دائرہ ہے اور آٹھ ہزار میل کا قطر ہے، پہاڑ اور سمندر سب بھرا ہوا ہے، نیچے کوئی ستون، سپورٹنگ پلر نہیں ہے، کوئی کھمبا نیچے نہیں لگا ہوا ہے۔ وہ زمانہ گیا جب نانی اماں اور دادی اماں کہتی تھیں کہ ایک بیل کے سینگ پر ہے یہ دنیا، سال بھر میں جب وہ تھک جاتا ہے تو سینگ بدلتا ہے بے چارہ۔ سال بھر میں تھکتا ہے، پہلے نہیں تھکتا۔ اس کے بعد ایک سینگ سے اُٹھا کر دنیا کو دوسرے سینگ پر لاتا ہے تو بھیا پھر زلزلہ آجاتا ہے۔ یہ ہماری دادی بتایا کرتی تھیں لیکن اب وہ زمانے ختم ہوگئے، سائنسی دور نے بتادیا کہ اتنی بڑی دنیا کے نیچے کوئی _____________________________________________ 7؎اٰل عمرٰن: 191 8؎اٰل عمرٰن: 191