اہل اللہ اور صراط مستقیم |
ہم نوٹ : |
|
مخلوق میں فکر کرو۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے لیے فکر کا لفظ نازل کیا اور اپنے نام کے لیے ذکر کا لفظ نازل کیا یَذۡکُرُوۡنَ اللہَ نازل کیا اور وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ نازل فرمایا۔ حکیم الامت قرآ نِ پاک کی تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ کے حاشیہ مسائل السلوک میں فرماتے ہیں کہ اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ فکر برائے مخلوق اور ذکر برائے خالق ہے۔ آہ! کیا علوم ہیں ہمارے بزرگوں کے۔ ممانعتِ تفکر فی اللہ کی حکمت اور حدیثِ پاک میں اللہ کی ذات میں فکر کرنے سے کیوں منع کیا گیا؟ لَا تَتَفَکَّرُوْا فِی اللہِ اللہ کی ذات کے بارے میں مت سوچو کہ وہ کیسے ہیں؟ اس کی علّت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی فَاِنَّکُمْ لَمْ تَقْدِرُوْا قَدْرَہٗ فائے تعلیلیہ ہے، پس تحقیق چوں کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کو عقل کی ڈبیہ میں، عقل کے برتن میں نہیں لاسکتے ہو،عقل تمہاری محدود، اللہ تعالیٰ کی ذات غیر محدود، پس غیر محدود کو محدود میں نہیں لایا جاسکتا۔ صراحی اپنے اندر مٹکے کو نہیں لاسکتی، مٹکا اپنے اندر حوض کو نہیں لاسکتا، حوض اپنے اندر دریا کو نہیں لاسکتا، دریا اپنے اندر سمندر کو نہیں لاسکتا جبکہ یہ سب محدود ہیں، جب چھوٹے محدود بڑے محدود کو اپنے اندر نہیں سماسکتے تو خدائے تعالیٰ تو غیر محدود ہیں، ہم محدودوں کے اندر وہ کیسے آسکتے ہیں؟ اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ؎تو دل میں تو آ تا ہے سمجھ میں نہیں آتا میں جان گیا بس تری پہچان یہی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اہل اللہ کے دل میں تو آجاتے ہیں، دل میں نظر دے دیتے ہیں، وہ اپنے قلب کی آنکھوں سے گویا اللہ کو دیکھتا ہے لیکن عقل اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ اکبر الٰہ آبادی ہی کا ایک اور شعر ہے ؎عقل جس کو گھیرلے لاانتہا کیوں کر ہوا جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا