ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2017 |
اكستان |
|
بھی رکھتا ہے اس لیے آپ نے ان کو قسم دی،اگر تین کے بعد رجوع کا حق ہوتا اور تین ایک سمجھی جاتی تو آپ اُن کو قسم نہ دیتے،سوچنے کی بات ہے کہ جب ایک لفظ میں تین طلاق کی نیت کے ساتھ تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں تو تین طلاق کے لفظ کے ساتھ یا لفظ طلاق کے بہ نیت طلاق تین مرتبہ تکرار کے ساتھ تین طلاقیں واقع کیوں نہیں ہوں گی ؟ یاد رہے کہ اس روایت کے بعض طُرُق میں حضرت رکانہ کے طلاق بتہ دینے کے بجائے تین طلاق دینے کا ذکر ہے جس سے بعض لوگ یہ ثابت کرتے ہیں کہ آنحضرت ۖ نے تین کو ایک شمار کیا اور حضرت رکانہ کی اہلیہ کو حضرت رکانہ کی طرف لوٹا دیا،یہ روایت محدثین کے کہنے کے مطابق انتہائی ضعیف ہے کیونکہ اس میں بہت سے مجہول راوی موجود ہیںاس لیے یہ قابل استدلال نہیں،اس قدر اہم معاملہ میں ایسی روایت کو پیش کرنا انصاف کے خلاف ہے۔ ایک طویل حدیث میں حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ کے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : فَلَمَّا فَرَغَا قَالَ عُوَیْمِر کَذَبْتُ عَلَیْہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ اِنْ اَمْسَکْتُہَا فَطَلَّقَہَا ثَلَاثًا قَبْلَ اَن یَّأْمُرَہ' رَسُوْلُ اللّٰہَ ۖ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ فَکَانَتْ تِلْکَ سُنَّةُ الْمُتَلَاعِنَیْنِ۔ ١ '' جب دونوں میاں بیوی لعان سے فارغ ہوئے تو حضرت عویمر نے (رسول اکرم ۖکی موجودگی میں)کہا کہ یا رسول اللہ ۖ اگر میں اس کے بعد بھی اِس عورت کو اپنی زوجیت میں رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہوگاکہ میں نے اِس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی،قبل اس کے کہ رسول اللہ ۖ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ کی بات کا کوئی جواب دیتے اُنہوں نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے ڈالیں،ابن شہاب زُہری فرماتے ہیں کہ لعان کے بعد تفریق کی سنت حضرت عویمر کی تفریق کے بعد سے جاری ہوگئی۔'' ------------------------------ ١ بخاری شریف ج٢ص٧٩١،مسلم شریف ج١ص٤٨٨ کتاب اللعان، مشکٰوة شریف ص٢٨٥