ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2017 |
اكستان |
|
یہ رسالہ اپنے موضوع کے اعتبار ایک علمی رسالہ ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیاست میں حضرت قاری صاحب مذکورہ بالا بزرگوں کے نقش ِقدم پر تھے۔ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ جمعیت علمائے ہند سے ہمیشہ وابستہ رہے، جمعیة العلماء کی مجالس کے صدور رہے، سندھ میں جمعیة العلماء کا وہ تاریخی جلسہ جس کے صدر حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب تھے اور آپ کا خطبہ معرکة الاراء تھا اُس میں آپ کے اُستاذ ِمحترم امامِ انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی نور اللہ مرقدہ صرف آپ کا خطبہ سننے کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ جمعیة علمائے آسن سول کاخطبہ بھی نہایت شان کا تھا اُس کا موضوع ''اسلام اور فرقہ واریت'' تھا، یہ خطبہ فی البدیہہ تھا، مولانا ازہرشاہ قیصر مرحوم نے حضرت حکیم الاسلام سے عرض کیاکہ آپ اس خطبے کے مطالب کو قلم بند فرمادیں، حضرت حکیم الاسلام نے اس خطبے کو بعینہ فی البدیہہ تقریر کی طرح قلم بند کردیا تھا اور دارُالعلوم کے رسالے میں ١٩٥١ء میں چھپ گیا تھا، راقم الحروف نے اس کو ایڈٹ کرکے مکتبۂ اَسعدیہ کراچی سے چھپوا دیا ہے۔ حضرت مولانا سیّد فخر الدین احمد مرادآبادی (صدر جمعیت علمائِ ہند) کے انتقال کے بعد جمعیت کی صدارت کے لیے تین بزرگوں نے الیکشن لڑنے کافیصلہ کیاتھا : ایک حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی ،دوسرے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ، تیسرے مرشدی حضرت مولاناسیّد اَسعد مدنی، پھر حضرت حکیم الاسلام نے صدارت کے الیکشن سے پہلے اپنا نام واپس لیاتھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ سیاسی طور پر جمعیت علمائے ہند کے مسلک و طریق پر تھے۔تصنیفات و تالیفات : حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کے قلم کواللہ تعالیٰ نے خوب طاقت عطا فرمائی تھی آپ جس طرح تقریر کے بے تاج بادشاہ تھے اِسی طرح آپ کی تصانیف بھی عجیب جاذبیت وکشش اور دلائل سے مدلل ہوتی تھیں، آپ کے قلم سے اُمت کی رہنمائی کے لیے