ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2017 |
اكستان |
|
راشدی صاحب نے لکھا تھا کہ حضرت حکیم الاسلام کو سبکدوش کیاگیا تھا، یہ تاریخ کو مسخ کرنے کا ایک بھونڈا طریقہ تھا اور میں نے راشدی صاحب کو لکھا بھی تھا اور حکیم الاسلام کے ہاتھ کا لکھا ہوا استعفیٰ کاعکس بھی بھیجا تھا لیکن ایک '' تصحیح ''بھی شائع نہیں کی گئی ،اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب انحطاط کے زمانے میں بھی اپنے آپ کو حضرت حکیم الامت اور حضرت شیخ الاسلام سے زیادہ اُونچا اور مصروف سمجھا جاتا ہے، دارُالعلوم دیوبند اکابر کی میراث ہے، الحمد للہ اپنی شان کے مطابق رواں دواں ہے۔علالت و رِحلت : اجلاس صد سالہ کے بعد حضرت حکیم الاسلام کی صحت دن بدن گرتی چلی گئی آپ کو سب سے زیادہ صدمہ دارُالعلوم میں انتشار کاتھااسی ہی صدمے اور رُوحانی پریشانی میں ٦ شوال المکرم ١٤٠٣ھ/ ١٧ جولائی ١٩٨٣ء اتوار کے دن اَٹھاسی سال کی عمر میں رحلت فرماگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ آپ کے انتقال سے ایک علمی خلا ہو گیا اور اکابر ِ دیوبند کو دیکھے ہوئے ایک بزرگ سے اُمت محروم ہوگئی یہ حقیقت ہے کہ جو اِس دنیا میں آتا ہے وہ جانے ہی کے لیے آتا ہے (کُلُّ نَفْسِ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ) نمازِ جنازہ دارُ العلوم دیوبند کے احاطہ مولسری میں ہوئی اور قبرستان قاسمی میں یہ گنج گراں مایہ سپرد ِخاک کردیا گیا کیسی کیسی صورتیں آنکھوں سے پنہاں ہوگئیں کیسی کیسی صحبتیں خوابِ پریشاں ہوگئیں اللہ تعالیٰ آپ کے فیض کو جاری رکھے اور ہمیں اپنے بزرگوں کا نقش ِقدم میسر ہو، آمین بجاہ سیّد المرسلین ۖ ۔