ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2017 |
اكستان |
|
ساتھ ہی اپنے نفس پر بھی ضرورت سے زیادہ خرچ نہیں کرتے بلکہ محتاج بندوں کی حاجتیں ظاہر ہونے کے منتظر رہتے ہیں اور جس وقت کوئی مصرف(موقع خرچ)پاتے یا کسی کو محتاج دیکھتے ہیں تو بے دریغ مال خرچ کر ڈالتے ہیں یہ لوگ اپنے مال کی زکوة یعنی مقدارِ فرض پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ سارے مال کو اللہ ہی کے لیے خرچ کرنے کی نیت رکھتے ہیں کہ مال پاس رکھنے سے اُن کی غرض اِس کو راہِ خدا ہی میں خرچ کرنے کی ہے البتہ موقع و محل کا انتظار ہے۔(٣) خیرات کا ادنیٰ درجہ : تیسرے درجہ میں وہ کمزور مسلمان ہیں جو زکوةِ واجبہ ہی کے ادا ہونے کو غنیمت سمجھتے ہیں کہ اگر اِس سے زیادہ خیرات نہیں کرتے تو مقدارِ واجب میں حبہ(دانہ)برابر کمی بھی نہیں کرتے۔ اوران تینوں گروہوں کے مرتبوں کا فرق اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کی مقدار اِن کے خرچ کی حالت سے خود ہی سمجھ لو،اگر تم پہلے اور دوسرے درجہ تک نہ پہنچ سکو تو کم سے کم تیسرے درجہ سے بڑھ کر متوسط لوگوں کے ادنیٰ درجہ تک تو پہنچنے کی کوشش ضرور کرو کہ مقدارِ واجب کے علاوہ روزانہ کچھ نہ کچھ صدقہ کر دیا کرو اگرچہ روٹی کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہوپس اگر ایسا کرو گے توبخیلوں کے طبقہ سے اُوپر چڑھ جائو گے۔مفلس مسلمانوں کی خیرات : اگر تم مفلس و تہی دست (خالی ہاتھ)ہوتو یہ نہ سمجھو کہ صدقہ مال ہی میں منحصر (محدود)ہے اور ہم اِس سے معذور ہیں،نہیں بلکہ اپنی عزت وجاہ و آرام و آسائش قول و فعل غرض جس پر بھی تمہیں قدرت ہو اُس کو اللہ کے نام پر خرچ کرو مثلاًبیمار کا پوچھنا،جنازے کے ساتھ جانااور حاجت کے وقت محتاج کی امداد کردینا مثلاً کسی مزدور کابوجھ بٹالینا ،سہارا لگادینا یاسعی و سفارش سے کسی کا کام نکلوا دینا اور نیک بات کہنا یعنی ہمت بندھانا، ڈھارس دلانا وغیرہ ،یہ سب اُمور صدقہ ہی میں شمار ہوتے ہیںاور ایسے صدقات ہیں جن کے لیے مالدار ہونے کی ضرورت نہیں۔ زکوة و صدقات میں پانچ باتوں کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے ۔