ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2017 |
اكستان |
|
جواب : محترم المقام زیدمجدکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبر کاتہ مزاج مبارک والا نامہ باعث ِ سرفرازی ہوا، جناب کامودودی صاحب کی تحریر دیکھ کر اِس قدر متاثرہونا کہ اسلام سے بدظن ہوجائیں تعجب خیز ہے۔ ٭ (اوّلاً) مولانامودودی خود اِقرار کرتے ہیں کہ میں عالم نہیں ہوں، وہ ''ترجمان'' ربیع الاوّل ١٣٥٥ھ میں تحریر فرماتے ہیں : ''مجھے گروہِ علماء میں شامل ہونے کا شرف حاصل نہیں ہے میں ایک بیچ کی راس کا آدمی ہوں جس نے جدید اور قدیم دونوں طریقہ ہائے تعلیم سے کچھ کچھ حصہ پایا ہے اور دونوں کوچوں کو چل پھرکر دیکھاہے اپنی بصیرت کی بناپرنہ تو میں قدیم گروہ کو سراپا خیر سمجھتاہوں اور نہ جدید گروہ کوشرِ محض ۔ '' تعلیم دین میں اِن کا صاف اقرار ہے کہ'' میں نے کچھ کچھ حصہ پایا ہے'' اِس کے بعد ان کاکوئی حکم شرعی اُمور کے متعلق آیا قابلِ وثوق واعتماد قرار دیا جاسکتاہے ؟ '' نیم طبیب خطرہ جان و نیم ملا خطرہ ایمان'' مشہورمقولہ ہے ۔ ٭ (ثانیًا) علاوہ ازیں داڑھی کے مسئلہ میںاُن کی یا کسی دوسرے کی رائے میں کتنا ہی بڑا اختلاف کیوں نہ ہو اُس کی وجہ سے اصولِ مذہب اسلام اور اُس کے عقائد اور فرائض اعمال پر کیا اثر پڑسکتاہے جس کی بناپرآپ اسلام سے بدظن ہونے پرآمادہ ہوگئے ہیں۔ مولانا مودودی صاحب کا یہ قول کہ ''میرے نزدیک داڑھی کابڑا اور چھوٹا ہونا یکساں ہے ،صحابہ میں صرف دوایک آدمی ایسے ملتے ہیں جن کی داڑھی مشت برابرہے۔'' یہ صرف اُن کی رائے ہے کہ دونوں یکساں ہیں، یہ رائے ایک ناقص العلم یا ناقص العقل کی