فیضان محبت |
نیا میں |
|
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اگر شہر سے کوئی ولی اللہ، کوئی صاحبِ نسبت گذر جائے اور اس کو وہاں قیام کا موقع نہ ہو تو اس شہر والے اس کے گذرنے کی برکت سے محروم نہیں رہیں گے۔ اِنْ مَرَّ وَلِیٌّ مِنْ اَوْلِیَاءِ اللہِ تَعَالٰی بِبَلَدَۃٍ لَنَالَ بَرَکَۃَ مُرُوْرِہٖ اَہْلُ تِلْکَ الْبَلَدَۃِ 7؎ جہاں دریا میں پانی ٹھنڈا ہوتا ہے دور دور چڑیوں کا چکر، ہواؤں کی ٹھنڈک، درختوں کی ہریالی بتادیتی ہے کہ اس دریا میں پانی ہے۔ کوئی صاحبِ نسبت کتنا ہی اپنے کو چھپائے وہ چھپانے پر قادر نہیں ہوسکتا، وہ چُھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو چَھپا دیتا ہے۔ مولانا شمس الدین تبریزی نے کہا تھا کہ اے جلال الدین رومی! تو مجھ پر کیوں پاگل ہے، میرے اندر تو کچھ بھی نہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ بھی معمولی شخصیت نہیں تھے، وہ استدلال پیش کیا کہ اپنے پیر کو بھی خاموش کردیا اور فرمایا کہ اگر کوئی شخص دنیا کی شراب پی کر اور الائچی پان کھاکر اس کی بو کو چھپا بھی دے لیکن ظالم اپنی مست آنکھوں کو کہاں لے جائے گا؎ بوئے مے را گر کسے مکنوں کند چشم مست خویشتن را چوں کند لہٰذا اے سراپا جمال میرے مرشد! میں اس بات کا عادی نہیں ہوں ؎ خونداریم اے جمالِ مہتری کہ لب ما خشک و تو تنہا خوری کہ میں خشک لب ہوں، مجھے اللہ کی محبت کا کوئی ایک جام بھی آپ نہیں پلارہے ہیں اور اکیلے اکیلے دریا کے دریا پی رہے ہیں۔ ایسی عقیدت و محبت تھی کہ پیر کا نام آتے ہی مولاناصفحے کے صفحے ان کی محبت میں لکھ جاتے ہیں۔ تو دوستو! یہ عرض کررہا تھا کہ دارالعلوم کسے کہتے ہیں؟ اور علم کی حقیقت کیا ہے؟ علم آں باشد کہ بکشاید رہے علم وہ ہے جو اللہ تک پہنچنے کا راستہ کھول دے اور ؎ _____________________________________________ 7 ؎مرقاۃ المفاتیح:باب اسماءاللہ تعالٰی، 191/5(2288)،مطبوعۃ دارالکتب العلمیۃ