ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2016 |
اكستان |
|
اگر تمہیں کامیابی نہ ہوئی اور کوئی بھی سیدھا نہ ہوا اِس کے باوجود تمہارا بڑا درجہ ہے اور تمہیں پورا اَجر ملے گا، تم اطمینان رکھو تمہارا کام اللہ کے دربار میں مقبول ہے۔ جنابِ رسول اللہ ۖ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خیبر فتح کرنے کے لیے بھیجتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ ۖ کیا جاتے ہی قتال شروع کردُوں ؟ حضور ۖ نے فرمایا وہاں جا کر ٹھہرو اور لو گوں کو لااِلٰہ اِلا اللہ کی طرف بلاؤ اگر نہ مانیں تو دُوسرا معاملہ کرنا اِس لیے کہ لاَنْ یَھْدِیَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا خَیْرُلَّکَ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا ١ ایک آدمی کو بھی تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ ہدایت کردے تو وہ تمہارے لیے دُنیا وما فیہا سے بہتر ہے۔ دُوسری روایت میں ہے کہ تم کوجوان اُونٹوں کے ملنے سے بھی بہتر ہے۔ بھائیو ! تم نے جو قدم اُٹھایا ہے وہ مبارک ہے اللہ پاک تمہاری جدو جہد سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے اور تم سے اسلام کی خدمت لے، تم ہر گز تنگ دل مت ہو، تکلیفیں اُٹھانی پڑیں گی جیسے کہ حضور اَقدس ۖ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کو اُٹھانی پڑیں، کیا تم کو خبر ہے کہ آقائے نامدار ۖ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عرب سے کیوں نکلے ؟ وہ عراق میں پہنچے ،شام، ایران، افغانستان، سندھ، یوپی، بہار اور جنوب میں دکن تک پہنچے، یہاں تک کیوں پہنچے ؟ اُن کا مقصد کیا تھا ؟ کیا ملک فتح کرنا تھا ؟ کیا دولت لوٹنی تھی ؟ ہر گز نہیں۔ اُن کا اصل مقصد لا اِلٰہ اِلا اللہ کی دعوت دینا تھا ، دُنیا کو سچے دین پر لانا تھا اللہ کے بچھڑے ہوئے بندوں کو اللہ سے ملانا تھا اور دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کرنا تھا، بعد والوں نے بے وقوفی کی کہ دُنیا کے پیچھے پڑ گئے، تاریخ گواہ ہے کہ ہند میں باہر سے آنے والے مسلمانوں کی تعداد صرف چار پانچ لاکھ تھی مگر تقسیمِ ہند کے وقت دس کروڑ پچیس لاکھ مسلمان تھے،ہمارے بزرگ اَسلاف نے اور اولیائے کرام نے تبلیغ دین کے لیے بہت ہی کوششیں کیں۔ ایک انگریز سمتھ لکھتا ہے کہ : ١ اور البتہ اگر ہدایت دے دیں اللہ تعالیٰ تیری وجہ سے کسی آدمی کو ،بہتر ہے تیرے لیے دُنیا اور اُس کے اندر جو کچھ ہے اُس سب سے۔