ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2016 |
اكستان |
|
کمالِ نیاز مندی : بہر حال ایک غلطی ہوئی جس کی وجوہات وہی ہیں جن کی طرف تحریرِ سابق میں اِشارہ کیاگیا، اِن کے علاوہ اور بھی وجوہات بیان کی گئی ہیں جن کو ہم نے بنظر اِختصار نقل نہیں کیا ہے۔ اب اِس تنبیہ کے بعد موقع تھا کہ سیّدنا آدم علیہ السلام معذرت کرتے اورغلطی کی وجوہات بیان کر کے براء ت کی سبیل نکالتے مگر کمالِ نیاز مندی یہ ہے کہ انسان خود کوسرا سر تقصیر اور سر تاپا ہیچ سمجھے اور اعترافِ تقصیر میں کوتاہی نہ کرے۔ غور فرمائیے یہ پوری ہستی جس کا نام انسان ہے اِس کی حیثیت ہی کیا ہے ،صرف یہی ایک مشت ِ خاک ہے جس کو لطف ِ الٰہی نے اتنا نوازا کہ مسجود ِملائک بنا دیا، یہ مشت ِ خاک کی خوبی ہے یااللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی قدر افزائی ؟ انسان اپنی حقیقت سے جب تک نا واقف رہتا ہے وہ اپنی ہستی میں اُلجھا رہتاہے لیکن جیسے جیسے چشم ِمعرفت میں بصیرت پیدا ہوتی رہتی ہے وہ اپنی ہستی کو فنا، اپنے عمل کو حقیر، اپنی جدو جہد کو نا چیز سمجھتا رہے گا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ (جن کو صدیقیت کاوہ خطاب عطا ہوا جو اُمت ِ محمدیہ میں کسی کو حاصل نہیں ہوا، خود قرآنِ مجیدمیں جا بجا اِن کی توصیف فرمائی گئی) فرمایا کرتے تھے ''اے کاش ! میں درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا۔'' حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کو دیکھا گیا کہ آپ حرمِ کعبہ میں سر رکھے ہوئے اِلتجا کر رہے ہیں من نہ گویم کہ طاعتم بپذیر قلمِ عفو بر گناہ ہم کش ١ شیخ سعدی فرماتے ہیں اور بہت ہی خوب فرماتے ہیں عاصیاں اَز گناہ توبہ کنند عارفاں اَز عبادت اِستغفار ٢ بہرحال حضرت آدم علیہ السلام نے ندائِ الٰہی کے جواب میں فورًا عرض کیا : ( رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ) ( الاعراف : ٢٣ ) ١ میں یہ نہیں کہتا کہ میری طاعت کو قبولیت بخش (بلکہ میری صرف یہ التجا ہے کہ )معافی کا قلم گناہوں پر کھینچ دے ٢ گناہگار گناہ سے توبہ کرتے ہیں اور عارفین عبادت سے(عبادت کے بعد بھی) اِستغفار کرتے ہیں ۔