ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2016 |
اكستان |
|
خَلَقَ اللّٰہُ اٰدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہ ١ ''آدم علیہ السلام کو اپنی ہی صورت پر پیدا کیا ۔'' (لَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ) ٢ ''ہم نے انسان کو بہترین ڈھانچہ میں پیدا کیا ۔'' ابلیس نے اِس عجیب الخلقت کودیکھا توکہا ''کسی عظیم الشان کام کے لیے اِس کو بنایا گیا ہے'' ٣ (٢) زمین کی خلافت : حضرتِ حق کی جانب سے عام اعلان ہوا ( اِنِّیْ جَاعِل فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً )٤ ''میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔'' رب العالمین کایہ اعلان سلسلہ تکوین میں بالکل نرالا تھا ! کیوں نہ ہو خلافت کا مسئلہ تھا ! ! اِس اعلان کا مقصد بظاہر عظمت ِ آدم کا اظہار تھا اگرچہ اِمام تفسیر حضرت قتادہ ٥ کا قول یہ ہے کہ مشورہ مقصود تھا گویا باصطلاحِ جدید رائے عامہ معلوم کرنی تھی۔ دریافت ِ حکمت : فرشتوں کی شان بیان کی گئی ہے (لاَ یَسْبِقُوْنَہ بِالْقَوْلِ) اِس کی تفسیر حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمائی کہ ''وہ کوئی ایسی چیز دریافت نہیں کر سکتے جس کی اِجازت نہ ہو۔'' لہٰذا اِن ملائک سے یہ تو ناممکن ہے کہ حضرتِ حق کے کسی فعل پر اِعتراض کریں اور نہ یہ ممکن ہے کہ اُن کے دل میں ابنائِ آدم سے حسد ہو کیونکہ حسد بد ترین گناہ ہے اور فرشتے گناہوں سے پاک ہیں مگر وہ عجیب و غریب کرشمہ ٔ قدرت ١ اِس حدیث کابظاہر مفہوم یہی ہے کہ آدم کو نرالی صورت عطافرمائی جو کسی اور مخلوق کو عطا نہیں ہوئی اِسی کی جانب آیت کریمہ(لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ) سے اِشارہ سمجھ میں آتاہے اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ جس طرح اولادِ آدم کی پیدائش میں مختلف درجات ہوتے ہیں اوّل خون بستہ پھر پارچہ گوشت وغیرہ وغیرہ یہ حالات آدم علیہ السلام پر طاری نہیں ہوئے بلکہ جو صورت اُن کوعطاکرنی تھی دفعةً عطاکردی گئی۔ اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ جو نقشہ خدا نے اَزل میں تجویز فرما لیا تھا اُسی پر پیدا کیاکسی سے مشورہ یارائے نہیں لی۔واللہ اعلم(فتح الباری جلد ٦ ص ٢٦٠) ٢ سُورة التین : ٤ ٣ ترمذی شریف ٤ سُورة البقرہ : ٣٠ ٥ تفسیر اِبن کثیر ج ١ ص١١٩