ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2016 |
اكستان |
|
ہوکر بیٹھ گئی ہو بلکہ دستورِ الٰہی یہ ہے کہ موقع بہ موقع قدرت اور تاثیر کا فیضان ہوتا رہتاہے جب تک قدرت کا فیضان نہ ہو ہاتھ حرکت نہیں کرسکتا زبان بول نہیں سکتی آنکھ دیکھ نہیں سکتی کان سن نہیں سکتے اور زہر مار نہیں سکتا۔ میں نہیں کہہ رہا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے معتزلہ کے مسلک کی حمایت کی، ہر گز نہیں ! ہرگز نہیں ! ! میرا مقصد یہ ہے کہ اُس مسئلہ کی پیچیدگی کا اظہار کردوں جو حضرت آدم علیہ السلام کے لیے مغالطہ کا باعث ہوگیا۔ ہاں اِس واقعہ سے ہمیں ایک دُوسرا سبق ملتا ہے کہ کسی مسئلہ کی منطقی یا فلسفی موشگافیوں میں پڑ کر یہ شکل قطعاً جائز نہیں کہ باری تعالیٰ عزاسمہ کے کسی صریح اِرشاد کی مخالفت کی جائے۔ (١٠) نَسِیَ اٰدَمُ فَنَسِیَ ابْنُہ : آدم علیہ السلام بھول گئے تو اُن کی اولاد بھی بھولنے لگی، اِرشادِ الٰہی تھا : ( وَلاَ تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ) (سُورة البقرہ : ٣٥ ) ''اور اِس درخت کے قریب مت جاؤ کہ ظالم ہوجاؤ گے۔ '' مگر سیّدنا آدم علیہ السلام قربِ الٰہی کے شوق، جنت میں دوام اور خلود کی طمع اور پھر تاثیرِ شجرہ کے متعلق ایک عجیب و غریب پیچیدگی میں ایسے منہمک ہوگئے کہ باری تعالیٰ عزاسمہ کے اِرشاد کا خیال نہ رہا (فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْلَہ عَزْمًا ) ١ ' 'حضرت آدم علیہ السلام بھول گئے ہم نے اُن کا عزم نہیں پایا ۔ '' ''نِسیاں'' کو ''عِصیاں'' کیوں کہاگیا : مگر ایک ایسے شخص سے جونبی ہویا نبی ہونے والا ہو جو تقربِ الٰہی کے اُونچے مرتبے کا مالک ہو جس کو خطاب و کلام سے نوازا گیا ہو ایسا انہماک واستغراق بھی ایک لغزش ہے۔ سچ پوچھو تویہ استغراق بھی اللہ ہی کے لیے تھامگر افسوس کہ اِرشادِ صریح کے مخالف ہوگیا، اِس کی مثال ایسی خیال فرمائیے کہ نماز پڑھتے پڑھتے کوئی شخص قرآنِ پاک کی فصاحت وبلاغت میں ایسامحو ہوا کہ کچھ کا کچھ پڑھ گیا یا معانی ١ سُورہ طٰہٰ : ١١٥