ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2016 |
اكستان |
ایک بار ایران کا سفیر بادشاہ دہلی کے پاس آیا۔ مرزا بیدل کا صوفیانہ کلام پڑھ کر لوگ قطب سمجھتے تھے، بادشاہ کے دربار میں سفیر ایران آیا تو مرزا کا تعارف بھی کرایا گیا ڈارھی خشخشی تھی،پوچھا آغا رِیش می تراشی ١ مر زا نے کہا رِیش می تراشم و لیکن دل کسے را نمی خراشم ٢ سفیر نے جواب دیا بلے دلِ رسول اللہ می خراشی ٣ مر زا صاحب ِکمال تھے ، غلطی معلوم ہوئی تو سر نیچا کر لیا گھرگئے اور تین دن تک شر مندگی سے باہر نہ آئے۔ آقائے نامدار ۖ کے سامنے اعمال پیش ہوں کہ فلاں اُمتی یورپین فیشن کرتاہے تو کیا حضور ۖ کے دلِ مقدسہ کو صدمہ نہ ہوگا ؟ پہلے بھی ستائے گئے۔ لَقَدْ اُوذِ یْتُ فِی اللّٰہِ مَا اُوْذِیَ اَحَد مِّثْلِیْ وَ لَقَدْ اُخِفْتُ فِی اللّٰہِ مَا اُخِیْفَ اَحَد مِّثْلِیْ ۔ (الحدیث) ''میں اللہ کی راہ میں اِتنا ستایا گیا کہ کوئی اِس قدر نہیں ستایا گیا اور مجھے اللہ کی راہ میں اِس قدر ڈرایا گیا کہ کسی کو اِس قدر ڈرایا نہ گیا۔'' غرض ہر طرح سے آقائے نامدار ۖ نے تکلیفیں اُٹھائیں اور آج سنت کی خلاف ورزی کرکے رسول اللہ ۖ کو ستاتے ہیں۔ منیب صحابی بنی سلیم کے کہتے ہیں کہ (ایامِ جاہلیت میں) میں حج کوگیا تھا عرفات کے میدان میں دیکھا کہ ایک نو جوان سرخ عبا پہنے ہوئے یہ کہتا جا رہا ہے یٰآاَیُّھَا النَّاسُ وَحِّدُوا اللّٰہَ تُفْلِحُوْا ..... ١ اے آغا تو ڈاڑھی منڈا رہا ہے۔ ٢ ڈاڑھی منڈا رہا ہوں کسی کا دل نہیں چیر رہا۔ ٣ ہاں دلِ رسول اللہ تراش رہا ہے(زخمی کر رہا ہے) ۔