ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2016 |
اكستان |
|
قرآن کے غور و فکر میں ایسا منہمک ہوا کہ رکوع کا خیال ہی نہ رہا سجدہ میں چلا گیا ایسی صورت میں اُس کی نماز نہ ہوگی یاسجدہ لازم آئے گا بلکہ حضرت اِمام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کا قول تویہی ہے کہ نماز کی حالت میں قرآنِ پاک کی فصاحت وبلاغت میں محویت اُس اُونچے درجہ کے لیے حجاب بن جاتی ہے جو نماز سے مقصود ہے، بہرحال چونکہ یہ محویت اُس اُونچے مرتبے کے مخالف تھی جو حضرت آدم علیہ السلام جیسے مقربِ بارگاہِ ربِ صمد کے لیے شایاں ہے تواِس پر تنبیہ وارد ہوئی اور جس طرح حضرت آدم علیہ السلام کی طرف سے خود حضرت ِحق نے معذرت فرمادی کہ ''بھول گئے تھے، نافرمانی کا عزم نہ تھا۔ '' اِسی طرح اس اُونچے مرتبے کا لحاظ فرماتے ہوئے یہ سخت الفاظ بھی فرمائے گئے ( وَعَصٰی اٰدَمُ رَبَّہ فَغَوٰی) ١ ''آدم (علیہ السلام) نے نا فرمانی کی پس راہ سے بہکا۔ ''حضرت علامہ اُستاذ مولانا انور شاہ صاحب کشمیری رحمة اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ الفاظ اِسی دستور کے بموجب ہیں۔ جن کے رُتبے ہیں سِوا اُن کی سِوا مشکل ہے مشہور ہے کہ حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی قدس اللہ سرہ العزیز سے ایک مرتبہ پیروں کی اُنگلیوں کاخلال (جو مستحب ہے اورجس سے عام لوگ واقف بھی نہیں ہوتے) رہ گیاتوآپ اِس مستحب کے ترک پر چھ ماہ تک روئے ۔ایک بزرگ نے مسجد میں داخل ہوتے وقت داہنے پیر کے بجائے بایاں پیر رکھ دیا تومعتوب ہوئے۔ نزدیکاں را بیش بود حیرانی ٢ بہرحال اِس نسیان پر فورًا تنبیہ ہوئی : ( فَنَادٰ ھُمَا رَبُّھُمَا اَلَمْ اَنْھَکُمَاعَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَةِ وَاَقُلْ لَّکُمَآ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمَا عَدُوّ مُّبِیْن ) ( سُورة الاعراف : ٢٢ ) ''اُن کو پرور دگارنے ندا دی، کیامیں نے تم کو اِس درخت سے منع نہ کر دیاتھا اور کیایہ نہ کہہ دیاتھاکہ شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے۔ '' ١ سُورہ طٰہٰ : ١٢١ ٢ ترجمہ : مقربین کو حیرانی زیادہ ہوتی ہے۔