ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2016 |
اكستان |
|
اگرواقعہ توریت کی تصریح کے بموجب یہ درخت ایساہی تھا جس کے کھانے سے نیکی اور بدی کی پہچان کی قوت پیداہوجاتی تھی تو اغوا کا سبب ایک نہایت دقیق لطیفہ ہوگا یعنی یہ کہ کوئی چیز اپنااَثر خود سے کرلیتی ہے یااُس کی تاثیر کے لیے بھی حکمِ خدا وندی کی ضرورت ہے مثلاً زہر کومہلک مانا جاتا ہے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ تاثیر زہر میں خدا وند ِعالم نے پیداکی ہے لیکن اِس کی تاثیر کی کیا صورت ہوتی ہے آیا خدا وندی قدرت ایک مرتبہ یہ اَثر زہر میں پیدا کرکے اب فارغ اور معطل ہو کر بیٹھ گئی یا شکل یہ ہے کہ جب کسی نے مثلاً زہر کھایا تو اب پھر حکمِ اِلٰہی ہوتا ہے اور زہرمیں اِس تاثیر کی قدرت کا جدید فیضان ہوتا ہے اور جب تک اَمرِ الٰہی نہ ہو زہر محض بیکار ہے۔ توضیح کے طور پر یوں خیال فرمائیے کہ بجلی ایک خاص طاقت ہے جو اگر قمقمہ میں پہنچتی ہے تو روشنی کا کام کرتی ہے اور پنکھے پرپہنچتی ہے توحرکت پیدا کرنے کاکام کرتی ہے جس سے ہوا پیدا ہوتی ہے قمقمہ روشنی کے لیے ہے، پنکھا ہوا کے لیے لیکن فائدہ جب حاصل ہوگا کہ جب بجلی آجائے، اِس کے بغیر نہیں، توآیا زہر کی حیثیت اُس قمقمہ جیسی ہے یا زہر کی مثال بجلی کے مخزن کی ہے جس میں بجلی بندہے۔ شجرہ کی صورت میں اِسی مثال کوچسپاں کیجئے تو سوال یہ ہوا کہ آیا یہ شجرہ نیکی اور بدی کی پہچان کی قوت کا ایک مخزن تھا یا قمقمہ کی طرح وہ ایک علامت تھا کہ قانونِ قدرت اُس کے متعلق یہ تھا کہ جب کوئی کھا لے تو نیکی اور بدی کی پہچان کی قوت کا فیضان ہوتاتھا۔ یہ مسئلہ علمِ کلام کا وہ باریک مسئلہ ہے جس کے متعلق قرآنِ پاک کے نزول کے بعد بھی دو رائیں ہوگئیں ۔ فرقہ معتزلہ کا مسلک یہ ہے کہ تمام چیزوں کی مثال بجلی کے مخزن کی ہے، قانونِ قدرت نے تمام چیزوں میں تاثیر پیدا کر دی اب یہ چیزیں بذاتِ خود اَثر کرتی ہیں۔ اور اہلِ سنت و الجماعت کا مذہب ِ حق یہ ہے کہ دُنیا کی تمام چیزیں ایک علامت کی حیثیت رکھتی ہیں، یہ صورت قطعًا نہیں کہ اِن چیزوں میں طاقت و دیعت کرکے قدرتِ الٰہی معطل اورفارغ