ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2016 |
اكستان |
|
میں آپ کے پاس مسلمان ہونے کے لیے آیا ہوں حضرت نے اُس کو مسلمان کر لیا، تو یہ چیز مسلمان کے ساتھ مخصوص نہیں فراق و وصل چہ خواہی رضاء دوست طلب حیف باشد اَزو غیر اَزیں تمنا ١ دُوسرا درجہ(قبول) صرف متقین اور مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے اِس لیے وصول کے ساتھ ساتھ قبول کے درجہ کو بھی حاصل کرنا چاہیے۔ متقدمین ِ صوفیاء کے یہاں اَخلاقی درستگی کو مقدم رکھتے تھے اِس لیے بہت دیر لگتی تھی اور بسا اَوقات اِسی میں عمریں ختم ہو جاتی تھیں وہ حضرات بالکل اَخیرمیں ذاتِ مقدسہ کامشاہدہ کراتے تھے اور جب تک ذکر میں اور دُوسری چیزوں میں پختگی نہ آجائے اِجازت نہ دیتے تھے۔ اوراَب متاخرین ِصوفیاء نے یہ طریقہ اِختیار کیا ہے کہ ذکر کے ساتھ ساتھ وصول کرادیا جاتا ہے اور یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ بد اَخلاقیاں دُور کرو اور مغرور نہ بنو وغیرہ وغیرہ، وصول کے بعد اِس کے حاصل کرنے میںآسانی ہوتی ہے، تو میرے بھائیو ! رسول اللہ ۖ نے جب برائیوں کے دُور کرنے کی تلقین فرمائی ہے تواُن کو دُور کرو اور حضور ۖ کے نقش قدم پر چلنے کی صورت اِختیار کرو، معاملات میں عبادات میں اور ہر ہر چیز میں رسول اللہ ۖ کی اِطاعت کرو میں نے بہت مختصر طریقہ پر عرض کیا ہے آپ حضرات ہمیشہ سنت اور اہلِ سنت والجماعت کی اِطاعت کریں اور اللہ پاک کی پکڑ سے ہر آن ڈرتے رہیں۔ ٭ چوتھی بات یہ ہے کہ جو حضرات اِجازت کے قابل ہوگئے ہیں اُن کی فہرست تیار کر لی گئی ہے وہ آپ کو سناتا ہوں وہ یوپی، بہار، آسام، مدراس، گجرات اور پاکستان کے بیالیس اَفراد ہیں۔ ١ ترجمہ : فراق اور وصل کیا چاہتا ہے ، دوست کی رضا طلب کر کیونکہ دوست سے اِس کے علاوہ تمنا کرنا بہت ظلم کی بات ہے۔