ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2016 |
اكستان |
|
اور اَزواجِ مطہرات کو اِختیار دے دیا کہ : '' اَنْ یُّقْطِعَ لَھُنَّ مِنَ الْمَائِ وَالْاَرْضِ اَوْ یُمْضِیَ لَھُنَّ '' ١ ''وہ چاہیں تو اُن کے حصہ کے بموجب زمین اور پانی ( کنواں یا چشمہ) دے دیں یا جس طرح جو اَور کھجور کی شکل میں اُن کو نفقہ اب تک مل رہا ہے اِسی طرح پیش کیا جاتا رہے۔'' مختصر یہ کہ خیبر کی زمینیں کاشت کاروں سے لے کر مجاہدین کو دے دی گئیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اِس میں کوئی ترمیم نہیں کی (یعنی اُن اَراضی کو بیت المال کے تصرف میں نہیں دیا) کیونکہ خلیفہ کو یہ حق نہیں ہے کہ جو بات آنحضرت ۖ سے صراحت کے ساتھ ثابت ہو چکی ہے اُس میں کوئی ترمیم کرے لہٰذا جو تقسیم آنحضرت ۖ کے زمانے میں ہوئی تھی اُس کو باقی رکھا۔ البتہ جنگ ِ قادسیہ کا ایک خاص معاملہ خاص طور پرمستحق توجہ ہے اُس سے تو سیعِ بیت المال کامفہوم بھی واضح ہو جائے گا۔ ''بُجَیْلَہْ '' یمن کامشہور طاقتور قبیلہ تھا حضرت جریر بن عبد اللہ اُس کے شیخ اور رئیس تھے معرکۂ قادسیہ کی تیاری ہو رہی تھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ''آپ اِس معرکہ میں شرکت کریں آپ کوعراق کاایک تہائی یاایک چو تھائی دے دیا جائے گا۔'' (یحییٰ بن آدم ص ٤٥) حضرت جریر رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے کو لے کر عراق پہنچے جہاد میں شرکت کی اہلِ قبیلہ نے اِس کثرت سے جہاد میں شرکت کی کہ پوری فوج میں مجاہدین کی جو تعداد تھی اُس میں ٢٥ فیصدی اُس قبیلہ کے مجاہدین تھے، دشمن پراِن کا دباؤ بھی اِتناسخت تھاکہ دُشمن نے اپنے اَٹھارہ ہاتھیوں میں سے سولہ اِن کے مقابلہ میں جھونک دیے اور صرف دو ہاتھی باقی فوج کے مقابلہ میں تھے۔ یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ اِس میدان میں بجیلہ ہی نے دھاک جمائی ہے (اور پالہ جیتا ہے) اِنَّ بَاْسَ النَّاسِ ھَاھُنَا لَبُجَیْلَةُ ۔ ٢ ١ بخاری شریف ص ٣١٣ کتاب الخراج لابی یوسف ص ٨٩ ٢ اَبو یوسف ص ٣١