ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2016 |
اكستان |
|
آنحضرت ۖ نے اپنے دورِ مسعود میں یہ بھی کیا کہ خمس کا حصہ مستثنیٰ کر کے باقی حصوں کی اَراضی مجاہدین پر تقسیم کر دی اور ایسا بھی ہوا کہ کوئی دستہ کسی مہم پر بھیجا گیا اُس کے لیے کسی مخصوص حصہ کا وعدہ فرما لیا گیا کہ کامیابی کے بعد وہ حصہ اُس دستہ کے مجاہدین کو بطور ِاِنعام دیا جائے گا اِس کو ''نفل'' کہا جاتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں عراق فتح ہوا ،فتحِ عراق کے سلسلے میں ''معرکۂ قادسیہ'' بہت سخت اور فیصلہ کن تھا، مفتوحہ علاقوں کے متعلق جو دستور اَب تک رہا تھا اُس کی بنا پر جنگ قادسیہ کی کامیابی کے بعد ایک رائے یہ تھی کہ مفتوحہ علاقہ مجاہدین پر تقسیم کر دیا جائے لیکن فاروقِ اعظم کے سامنے ملک کی تعمیری ودفاعی خصوصًا عوام کی معاشی ضرورتوں کا سوال تھا کہ اگر مفتوحہ علاقہ مجاہدین پر تقسیم کر دیا جائے تو جاگیر دار تو بہت سے ہوجائیں گے جن کی جائیدادیں نسلاً بعد نسلٍ اُن کی اَولاد میں تقسیم ہوتی رہیں گی مگر اِن کے علاوہ دُوسرے لوگ خصوصًا بعد کی نسلیں خالی (اور محروم) رہ جائیں گی آخِرَ النَّاسِ بَبَّانًا لَیْسَ لَھُمْ شَیْیٔ لہٰذا آپ کی رائے یہ ہوئی کہ تقسیم کے بجائے اِن اَراضی کو ''خِزانہ'' بنا دیا جائے جس کو سب تقسیم کرتے رہیں گے۔ اَتْرُکُھَا خِزَانَةً لَّھُمْ یَقْتَسِمُوْنَھَا۔ ١ مشترکہ خزانہ کی وضاحت آپ کے اِس اِرشاد سے ہوتی ہے : لَئِنْ بَقِیْتُ لَا رَامِلَ اَھْلِ الْعِرَاقِ لَادَعَنَّھُمْ لَا یَفْتَقِرُوْنَ اِلٰی اَمِیْرٍ بَعْدِیْ ۔ ٢ ''اہلِ عراق کی بیوہ عورتوں کے نصیب سے اگر میں زندہ رہا تو اُنہیں ایسا کردُوں گا کہ میرے بعد کسی اور اَمیر (کے فرمان یا پروانہ) کی اُن کو ضرورت نہ رہے گی۔ '' صحابہ کرام کے خیالات مختلف تھے ،کچھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مخالف تھے کچھ موافق حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضراتِ صحابہ کا عام اِجتماع کیا اُس اِجتماع میں ہر ایک نے آزادی سے اپنی رائے ظاہر کی آخر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تقریر فرمائی۔ آپ نے سورۂ حشر کی وہ آیتیں ١ بخاری شریف ص ٦٠٨ باب غزوہ ٔ خیبر و کتاب الاموال لابی عبید ص ٥٦ فقرہ ١٤٣،کتاب الخراج لابی یوسف ص ٢٤ ٢ کتاب الخراج لابی یوسف ص٣٧