ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2016 |
اكستان |
|
ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک شخص کو کسی نے کہا کہ تو بت کو سجدہ کر لے، اُس نے ایساکرنے سے اِنکار کیا، پھر اُسے کسی کے قتل پر مجبور کیا گیا اُس نے یہ بھی نہیں مانا، پھر زنا میں شریک ہو جانے کا مطالبہ کیاگیا مگر وہ اِس پر بھی آمادہ نہیں ہوا، پھر اُس سے کہا گیا کہ شراب پی لو، اُس نے کہا یہ تومعمولی بات ہے اور پھر یہ شراب پی گیا۔ کہتے ہیں کہ وہ کسی کا فر پر عاشق تھا اُس کے کہنے پراُس نے شراب پی لی ،شراب پی جانے کے بعد اُس نے مذکورہ بالا تمام گناہوں کااِرتکاب کر لیا کیونکہ اُس کے حواس قائم نہیں رہے، عقل ٹھکانے نہیں رہی ۔ عقل کے معنی ہیں باندھنا، کیونکہ عقل اِنسان کو محر مات اور نقصان دہ با توں سے با ندھے رکھتی ہے اور قسم قسم کی بے حیا ئیوں اور برا ئیوں سے رو کتی رہتی ہے اور شراب اور عقل میں بیر ہے جہاں شراب کا نشہ چڑھا عقل مغلوب ہوگئی، نشہ جس قدر زیادہ ہو گا عقل اُتنی ہی کم ہو گی تو عقل برائیوں سے روکنے والی چیز ہے اور شراب نہیں رو کتی۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ شراب پہلے جائز تھی واقعہ اُحد کے بعد اِس کی ممانعت ہوئی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ شراب پی رکھی تھی، اُن کی باندی نے کوئی مصرع پڑھا تو آپ نے باہر بندھی ہوئی اُونٹنی کاکوہان کاٹ کر اُسے دے دیا ،باندی نے مصرع بھی اِسی طرح کا پڑھا تھاکہ اَلَا یَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النَّوَائِ اے حمزہ ! اِن لمبی لمبی اُو نٹنیوں کے لیے کھڑے ہو جائیے، وہ اُونٹنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تھی آپ کا نکاح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے طے ہو چکا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب اُو نٹنی کا یہ حال دیکھاتو بے ساختہ آنسو نکل آئے اور جا کر حضور اکرم ۖ سے ماجرا بیان کیا۔ آقائے نامدار ۖ تشریف لے آئے دیکھا تو حضرت حمزہ شدید نشے کی حالت میں تھے، آپ نے کچھ اِرشاد فرمایا تو حضرت حمزہ نے سر اُٹھایا اور کچھ کہا ،جو کچھ کہا نشے کی حالت میں کہا اور نا مناسب سی بات کہی جو بخاری شریف میں بیان ہوئی ہے۔ ١ ١ بخاری شریف کتاب المساقاة رقم الحدیث ٢٣٧٥