ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
( یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ)(سُورة البقرہ : ٢٧٨ ، ٢٧٩) ''اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جوکچھ سود باقی رہ گیا ہے اُسے چھوڑدو اگر تم مومن ہو پھر اگر نہیں چھوڑتے تو اللہ اور اُس کے رسول سے لڑنے کو تیار ہوجاؤ۔'' قرآنِ کریم میں اِس طرح کی سخت وعید کسی اور عمل پروارِد نہیں ہے اِس سے سودی آمدنی کے منحوس ہونے کا بہ آسانی اَندازہ لگایا جاسکتا ہے نیز اَحادیث شریفہ میں بھی کثرت کے ساتھ سود کی ممانعت وارِد ہوئی ہے۔ (١) حضرت عبد اللہ بن حنظلہ ص فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ۖنے اِرشاد فرمایا : دِرْہَمُ رِبٰوا یَاْکُلُہُ الرَّجُلُ وَہُوَ یَعْلَمُ اَشَدُّ مِنْ سِتَّةٍ وَثَلٰثِیْنَ زِنْیَةً. ١ ''سود کا ایک درہم جسے آدمی جان بوجھ کر کھائے اُس کا وبال اور گناہ ٣٦مرتبہ بدکاری کرنے سے بڑھا ہوا ہے۔'' (٢) سیّدنا حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ آکِلَ الرِّبٰوا وَمُوکِلَہ وَکاتِبَہ وَ شَاہِدَیْہِ وَقَالَ : ھُمْ سَوَائ. ٢ ''آنحضرت ۖنے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ کو لکھنے والے اور اُس کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔'' (٣) سیّدنا حضرت اَبوہریرہ ص آنحضرت ۖ کا اِرشاد نقل فرماتے ہیں : اَلرِّبٰوا سَبْعُوْنَ حُوْباً اَیْسَرُہَا اَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہ .(الترغیب والترہیب : ٢٨٨١) ''سود کے ستر درجات ہیں جن میں سب سے ہلکا درجہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے (نعوذ باللہ) منہ کالا کرے۔'' ١ مُسند احمد ٥ /٢٢٥ ، الترغیب ٢٨٧٧ ٢ رواہ مسلم٢/٢٧ ، مظاہرحق ٣/٢٣