ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
میں پائی جبکہ دُنیا وآخرت کے تمام شرور محتاجگی اور فسق وفجور میں پائے جاتے ہیں۔'' (اِصلاح المال ٤١) حضرت سفیانِ ثوری رحمة اللہ علیہ کے ہاتھ میں اَشرفیاں دیکھی گئیں تو کچھ لوگوں کو بڑا تعجب ہوا (کہ یہ بزرگ بھی دُنیا دار معلوم ہوتے ہیں) یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ ''اگر یہ اَشرفیاں ہمارے پاس نہ ہوتیں تو اُمراء اور حکام ہمیں اپنا دستی رُومال بنالیتے۔'' (یعنی اُن کی نظر میں ہماری کوئی عزت نہ ہوتی)۔ (اِصلاح المال ص٤١) حضرت سفیانِ ثوری رحمہ اللہ سے ہی منقول ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ ''مال اِس زمانہ میں مؤمن کا ہتھیار ہے''(جس کے ذریعہ وہ اپنی عزت اور نفس کی حفاظت کرتا ہے)۔ (اِصلاح المال ٤٢) حضرت مقدام بن معدی کرب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ''عنقریب ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں دِینار ودِرہم (روپے پیسے) کے علاوہ کوئی چیز بھی نفع نہ دے گی۔'' (اِصلاح المال ص ٤٣) ایک شخص نے حسن بن یحییٰ رحمة اللہ علیہ سے حبشہ کے علاقہ میں ملاقات کی جہاں وہ مالِ تجارت لے کر پہنچے ہوئے تھے تو اُس شخص نے اِن سے پوچھا کہ آپ یہاں کیسے آئے ؟ تو حسن بن یحییٰ نے بتلایا کہ میں تجارت کی غرض سے آیا ہوں، یہ سن کر وہ آدمی بولا کہ آپ کی یہ ساری تگ ودو دُنیا طلبی اور حرص کی بنیاد پر ہے ؟ تو حسن بن یحییٰ نے جواب دیا کہ ''یہ بات نہیں ہے بلکہ مجھے جس چیز نے اِس اِقدام پر مجبور کیا وہ یہ ہے کہ میں تم جیسے لوگوں کے سامنے ضرورت ظاہر کرنے کو ناپسند سمجھتا ہوں'' (گویا اِستغناء اور خود داری نے مجھے تجارت کا مشغلہ اَپنانے پر مجبور کیا)۔ (اِصلاح المال ص٢٣٧) حضرت سعید بن المسیب فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے، اپنی ذمہ داریوں کو بجالانے اور خلقِ خدا سے مستغنی رہنے کے واسطے مال سے محبت نہ رکھے اُس میں کوئی خیر نہیں ہے (یعنی مذکورہ نیک مقاصد سے مال طلب کرنا یقینا پسندیدہ ہے) ۔(شعب الایمان ٢/٩٢) حضرت ہیثم بن جمیل رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ سے پوچھا کہ کیا مجھے تجارت کے لیے سمندری سفر کرنا چاہیے ؟ تو حضرت عبد اللہ بن مبارک نے جواب دیا کہ ''سمندری اور خشکی ہر طرح کا سفر کرنا چاہیے اور عوام الناس سے مستغنی رہ کر زندگی گزارنی