ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
شہادت کی تمنا اور اُس کے شوق میں خود رسول اللہ ۖ کا حال یہ تھا کہ ایک حدیث میں اِرشاد فرمایا : ''قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میرا جی چاہتا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں پھر مجھے زندہ کر دیا جائے اور پھر میں قتل کیا جاؤں اور پھر مجھے زندہ کیا جائے اور پھر میںقتل کیا جاؤں پھر مجھے زندگی بخشی جائے اور پھر میں قتل کیا جاؤں۔'' ایک اور حدیث میں ہے حضور ۖ نے اِرشاد فرمایا : ''شہید کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھ اِنعام ملتے ہیں : (١) ایک یہ کہ وہ فورًا ہی بخش دیا جاتا ہے اور اُس کو جنت میں ملنے والا اُس کا مکان و مقام دِکھا دیا جاتا ہے (٢) دُوسرے یہ کہ قبر کے عذاب سے اُس کو بچا دیا جاتا ہے (٣) تیسرے یہ کہ حشر کے دِن اُس سخت گھبراہٹ اور پریشانی سے اُس کو اَمن دی جائے گی جس سے وہاں سب بے حواس ہوں (اِلا من شاء اللہ) (٤) چوتھے یہ کہ قیامت میں اُس کے سرپر عزت و وقار کا ایک ایسا تاج رکھا جائے گا جس میں ایک یاقوت تمام دُنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا (٥) پانچویں یہ کہ جنت کی حوروں میں سے بہتّر اُس کے نکاح میں دی جائیں گی (٦) چھٹے یہ کہ اُس کے قرابت داروں میں سے ستر کے حق میں اُس کی سفارش قبول کی جائے گی۔ '' ایک حدیث شریف میں ہے حضور ۖ نے فرمایا : ''شہید ہونے والے کے سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اَلبتہ اگر کسی آدمی کا قرض اُس کے ذمہ ہوگا تو اُس کا بوجھ باقی رہے گا۔'' اور یاد رہے کہ ثواب اور فضیلت اِسی پر موقوف نہیں ہے کہ دین کے راستہ میں آدمی مار ہی ڈالا جائے بلکہ اگر دین کی وجہ سے کسی اِیمان والے کوستایا گیا، بے عزت کیا گیا، مارا پیٹا گیا یا اُس کا مال