ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2015 |
اكستان |
|
دینا چنانچہ فورًا پایہ اُٹھا معلوم ہوا کہ رُوح کو لینے گیا ہے، تھوڑی دیر بعد پھر پایہ اُٹھامعلوم ہوا کہ جس رُوح کو بُلایا تھا وہ بھی آگئی، اَب ایسی ہی اِصطلاحوں میں اُس لڑکے کی رُوح سے سوالات کرنا شروع کیے اور اُس کی طرف سے ایسی ہی اِصطلاحوں میں جوابات دیے گئے۔ اَب ہم ناواقف لوگ بڑی حیرت میں تھے کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ اُن لوگوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ اَب آپ جس شخص کی رُوح کوبلوانا چاہیں تو ہم سے فرمائیں ہم اُس شخص کی رُوح کوبلاویں گے۔ چنانچہ میں نے حافظ شیرازی رحمة اللہ علیہ کی رُوح کو بلوایا۔ وہی تجمل حسین سب رُوحوں کو بلا بلا کر لا تا تھا چنانچہ اِسی طرح پایا پھر اُٹھا معلوم ہوا کہ حضرت حافظ بھی تشریف لے آئے، میں نے کہا اَلسلام علیکم، اِصطلاح میں جواب مِلا وعلیکم السلام پھر اُن لوگوں نے مجھ سے کہا آپ حضرت حافظ کا کچھ کلام پڑھیے اُن کی رُوح خوش ہوگی چنانچہ میں نے اُن کی غزل اَلَا یَااَیُّھَا السَّاقِیْ الخ پڑھی تومیز کا پایا بار بار اور جلدی جلدی اُٹھنے لگا ،اُس سے یہ سمجھاجانے لگا کہ گویا حافظ صاحب کی رُوح اپنا کلام سن کر خوش ہورہی ہے اور وجد میں آرہی ہے ،ہم لوگ بڑے تعجب میں تھے اور کوئی وجہ سمجھ میں نہ آتی تھی، اِتنے میں مغرب کا وقت ہوگیا نماز پڑھنے کے لیے اُٹھے ہم تینوں نے آپس میں گفتگوکی کہ یہ کیا بات ہے، اَخیر میں یہ رائے قرار پائی کہ یہ سب کرشمے قوت ِخیالیہ کے معلوم ہوتے ہیں،اَب اِس کا یہ اِمتحان کرنا چاہیے کہ جب وہ لوگ عمل کرنے لگیں توہم تینوں یہ خیال کر کے بیٹھ جاویں کہ پایہ نہ اُٹھے، مہتمم صاحب بولے کہ وہ لوگ مشاق ہیں ہم لوگوں کی کوشش اُن کے مقابلہ میں کیا کار گر ہوسکتی ہے ، میں نے کہا کہ تم ابھی سے ہمت نہ ہارو، نہیںتو کچھ بھی نہ ہوسکے گا یہی سمجھنا چاہیے کہ اُن کے خیال پر ہمارا خیال ضرور غالب آئے گا اِمتحان تو کرنا چاہیے چنانچہ ہم لوگ یہ مشورہ کر کے پھر بعد مغرب پہنچے اور اُن لوگوں سے کہا کہ اِس وقت پھر اپنا عمل دِکھلاؤ ،اُنہوں نے پھر عمل کرنا شروع کیا اِدھر ہم تینوں یہ خیال جما کر بیٹھ گئے کہ پایہ نہ اُٹھے چنانچہ اُن لوگوں نے بہت کوشش اور بہت زور لگایا کہ پایہ اُٹھے مگر کچھ نہ ہوسکا وہ بڑے شرمندہ ہوئے اور مجھ کو یقین ہوگیا کہ یہ سب قوتِ خیالیہ کے کرشمے ہیں۔ پھر اَگلے روز ہم نے خود تجربہ کیا اور اِسی طرح ہاتھ رگڑ کر میز پر رکھے اور ہم تینوں یہ سوچ کر