ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2015 |
اكستان |
|
ہے ،یہ ٧٤ سالہ جرمن صحافی واحد مغربی صحافی ہے جو اَب تک وہاں پہنچاہے اِس کے اِنکشافات ایسے ہیں کہ جو مغرب کے لیے کڑوی گولیاں سمجھی جا رہی ہیں اُنہیں پہلے اِس بات پر یقین نہیں آتا تھا کہ ہمارے سیکولر معاشرے سے اِس قدر جہادی کیسے پیدا ہو سکتے ہیں اَب وہ ٹوڈن ہومز کی اِس بات پر کیسے یقین کر لیں جو اُس نے سی این این پر اِنٹر ویو دیتے ہوئے کہی ہے ، اُس نے کہا کہ ''وہ وقت دُور نہیں جب داعش مغرب کے ساتھ بقائے باہمی کے لیے مذاکرات کرے گی اور مغرب کو دُنیا میں اَمن قائم رکھنے کے لیے اور کوئی راستہ نہیں ہوگا۔'' یہ غور کرنے کا مقام ہے سوچنے کی گھڑی ہے مغرب شاید سوچ رہا ہے کہ شدت پسندی اور دہشت گردی ہماری پالیسیوں اور طاقت کے اِستعمال سے پیدا ہوئی ہے لیکن اُس نے بندوق ہمارے ہاتھ میں پکڑا دی ہے، خون بھی ہماری زمینوں پر بہتا ہے اور شدت پسندی بھی یہاں جنم لیتی ہے، ہم کب تک قتل کرتے اور قتل ہوتے رہیں گے ؟ ؟ ؟ ؟ چند لمحوں کے لیے اپنے مسلک ،اپنی نسل، اپنے عقیدے اور اپنی تعلیم کے تعصب کو پس ِ پشت ڈال کر سوچیے ! ! ضرور ! ! صرف چند لمحوں کے لیے ! ! ! (روزنامہ ایکسپریس ١٩ جنوری ٢٠١٥ئ)